خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

‘سکون تب ملا جب دکان پر مادری زبان کی تختی لگی’

 

سٹیزن جرنلسٹ عظمت تنہا 

‘ہم پہلے بھی اپنی گیس ایجنسی کا نام انگریزی یا اردو میں لکھتے تھے لیکن دلی سکون تب ملا جب دکان پر اپنی مادری زبان کی تختی لگی’ یہ کہنا ہے ضلع بونیر کے علاقے کنگر گلئ سے تعلق رکھنے والے دکاندار حبیب کا جنہوں نے اپنے دکان پر پشتو زبان میں تختی لگائی ہے۔ حبیب نے دیگر کاروباری مراکز کے شخصیات سے بھی اپیل کی کہ اپنی مادری زبان کی لکھائی کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس سےکم سے کم وہ الفاظ و جملے آنیوالی نسلوں میں منتقل ہوجائیں گے جو کہ ہم تقریباً کھو چکے ہیں۔

بونیر میں اس مہم کا آغاز ایلم پختو ادبی کاروان کے بانی رکن احمد موسی سالار نے کیا ہے جنہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت گاؤں کنگر گلی بونیر میں دکانوں کی تختیاں اور سائن بورڈز پشتو زبان میں لکھے ہیں۔ احمد سالار نے اپنے ساتھیوں سمیت گاؤں کنگر گلی بونیر میں دکانوں کی تختیاں اور سائن بورڈز پشتو زبان میں لکھے ہیں۔

‘پچھلے چار سالوں سے ہماری کوشش تھی کہ بازار کے دکاندار او عوام کو اس بات پر آمدہ کرے کہ وہ اپنے دکانوں اور مارکیٹوں کے نام پشتو میں لکھے جو آخر کار رنگ لے آئی اور ہم نے بازار کے تقریباً 90 فی صد دکانوں کے نام پشتو زبان میں لکھ دیئے جو کہ بہت بڑی بات ہے’ احمد سالار نے کہا۔

موسی سالار کا کہنا ہے چار سال پہلے تنظیم کے ارکان نے فیصلہ کیا کہ کنگر گلی سمیت بونیر کے دیگر حصوں میں دکانوں اور دیگر کاروباری مراکز کی تختیاں اور سائن بورڈز کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا جائے لیکن کچھ مشکلات کی وجہ سے وہ اس عمل کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن گزشتہ دنوں بھائی کلے بونیر میں دکانوں کے نام اور تختیاں پشتو زبان میں لکھی دی گئی جس نے سوشل میڈیا سمیت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بھی پزیرائی حاصل کی۔ ہم نے بھی تنظیم کے اراکین کا اجلاس طلب کیا اور بازار کے دکانداروں و دیگر کاروباری مراکز کی مالکان سے بات کرنے نکلے۔
موسی سالار نے کہا کہ تقریباً 60 فی صد لوگ اس بات پر بلا شرط و مطالبہ راضی ہوگئے اور اخراجات بھی خود سے برداشت کرنے کی آفر کی تاہم باقی میں سے 20 فی صد ایسے لوگوں تھے جن کو تحفظات تھے اور ان کو دور کرنے کے لئے مختلف قسم کے سوالات کرتے تھے مثلاً یہ کمپئین کسی این جی او کی طرف سے تو نہیں؟ اس کمپئین کو کوئی مخصوص گروہ یا پارٹی سیاسی یا ذاتی فائدے کے استعمال تو نہیں کررہا ؟ وغیرہ وغیرہ۔

موسی کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک ایک کو بغور سنا، ہر ایک کی تسلی کی اور انہیں یقین دلایا کہ یہ محض اس غرض سے کر رہے ہیں کہ زندہ قوموں کی پہچان ان کی زبان ہوتی ہے اور ہم اپنی زبان کی تشہیر و تبلیغ اور عوام میں اپنی زبان کے نایاب و مخصوص الفاظ و جملوں کو عام کرنے کے لئے یہ کام کر رہے ہیں۔
موسی سالار کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے بالکل انکار کیا لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور انہوں نے انکار کی وجہ یہ بتائی کہ یہ سیاحتی علاقے ہیں اور یہاں دیگر علاقوں و ممالک کے لوگ بھی آتے ہیں اسی لئے ان کی سمجھ کے لئے اردو یا انگریزی میں نام لکھنا ضروری ہے۔
موسی سالار نے اس کمپئین کو سپورٹ کرنے اور رہنمائی کرنے پر ہنر کور ملاکنڈ اور امجد شہزاد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے ایک مشکل کام کو عوامی مدد سے ممکن بنایا۔
موسی سالار نے کلچر ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ نہیں رہا کہ صوبے میں اس کام کی انجام دہی یا فقط داد رسی ہی کے لئے کوئی محکمہ موجود ہے۔ اگر حکومت کی سپورٹ اس میں شامل ہو تو یہ ایک مؤثر قدم ہوسکتا ہے۔

معروف ادبی شخصیت و لکھاری طاہر بونیری نے اس مہم کی داد رسی اور تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ لگا اس کام کو انجام دینے میں لیکن داد کے مستحق ہیں ایلم پشتو ادبی کاروان کے نوجوانان اور اہل علاقہ جن کی مشترکہ کوششوں سے یہ ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بڑی بڑی تنظیموں نے ایسے اقدامات کرنے کی ہمت تک نہیں کی لیکن ہنر کور کی مدد اور رہنمائی میں پہلے بھائی کلے اور بعد میں کینگر گلئ سے شروع ہونیوالے اس کمپئین کو اب رکنا نہیں چاہئیے اور اسے صوبے کے دیگر حصوں تک پھیلانا چاہئے۔
پشتو اکیڈمی پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نصراللہ جان وزیر نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ میں اس عمل کا کھلے دل سے داد دیتا ہوں اور کوشش ہوگی کہ پشتو اکیڈمی کا جتنا ہوسکے اس میں حصہ ڈالا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف شاعر اور ادیب کے زبان کے الفاظ کو عوام تک پہنچانا انتہائی مشکل تھا اس سے دو کاموں میں آسانی پیدا ہوئی ایک تو ہر گزرنے والے شخص کی زبان سے پشتو کے تلفظ سیکھنے کا عمل جاری رہے گا اور دوسرا پشتو املا کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی اور اس ضمن میں پشتو اکیڈمی اپنا کردار ضرور ادا کرے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button