شانگلہ کے ایک گاؤں میں عربی ثقافت کے بکھرے رنگ
طارق عزیز
ایک بڑے سائز کی تھالی میں، زمین کے اندر بنے تندور میں تیار کئے گئے چاول اور اس کے اوپر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منظر شانگلہ کے ایک گاؤں کے نوجوانوں کی جانب سے تیار کردہ کھانے کی ہے- اس خوراک کو "مندی” کہا جاتا ہے۔
اس قسم کا خوراک عموما پاکستان میں نہیں ملتا کیونکہ یہ عرب کے کلچر کا حصہ ہے لیکن پاکستان کے ایک دور دراز ضلع شانگلہ کا ایک گاؤں ” کیڑی” میں ایسے خوراک اور عرب ثقافت کے دوسرے بہت سارے رنگ نظر آئیں گے-
مین سڑک سے ڈھائی کلومیٹر اوپر پہاڑ کے دامن میں واقع اس چھوٹے مگر خوبصورت گاوں کے اکثر لوگ سعودی اور دیگر خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں- اس گاؤں سے پہلا شخص 1977-78 میں سعودی چلاگیا جنہوں نے بعد میں دیگر رشتہ داروں اور پھر گاؤں کے دوسرے لوگوں کیلئے آہستہ آہستہ باہر جانے کا راستہ ہموار کیا- آج کل اس گاؤں کے تقریبا ہر گھر سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی خلیجی ملک میں ہے-
کیڑی کے ایک رہایشی بخت افضل جو 1979 میں پہلی بار سعودی عرب گئے ان کے مطابق اس سے کچھ عرصہ قبل ان کا بڑا بھائی اور گاوں کے تین چاردیگر لوگ سعودی عربیہ گئے تھے- ‘انہوں نے وہاں اپنی کفیل سے ہمارے لئے ویزے کی بات کی جس کے کچھ عرصہ بعد وہ عرب شخص کراچی آئے اور یہی ان سے ہماری ملاقات کروائی گئی اور تقریبا ایک ماہ کے پراسیس کے بعد ہم چار لوگ بھی سعودی پہنچ گئے’ انہوں نے کہا۔
بخت افضل سے ملتی جلتی کہانیاں خیبرپختونخوا سمیت پاکستان کے تقریبا تمام شہروں میں ملتی ہے کیونکہ شانگلہ کی طرح ہر شہر سے سینکڑوں اور ہزاروں پاکستانی سنہرے مستقبل کے سپنوں کے ساتھ باہر ممالک جاتے ہیں اور پھر دوسرے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کو بھی اپنے پیچھے بلا لیتے ہیں۔
بیورو اف امیگریشن کے مطابق 1981 سے لے کر 2020 تک پاکستان سے ایک کروڑ چھ لاکھ چھیاسی ہزار دو سوبیالیس (10686242) لوگ باہر ممالک جاچکے ہیں جن میں زیادہ تر خلیجی ممالک جانے والے مسافر شامل ہیں۔
ان اعداد و شمار میں شانگلہ کے 33650 لوگ شامل ہیں جو کہ کام کی غرض سے مختلف ممالک جا چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر خلیجی ممالک میں ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے غیر رجسٹرڈ مزدور بھی ہے جو غیر قانونی طور پر باہر جا چکے ہیں اور وہ لوگ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں۔
ویسے تو ان مسافروں کی وجہ سے بہت سے ممالک کی ثقافتی نشانیاں یہاں نظر آتی ہیں لیکن ان سب پر سعودی عرب کا ثقافت حاوی ہے۔
سعودی عرب میں ذیادہ عرصہ گزارنے کی وجہ سے وہاں کے خوراک اور دیگر ثقافتی نشانیاں شانگلہ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آہستہ آہستہ منتقل ہو رہی ہیں ان میں سے ایک عرب ممالک کا ایک روائتی خوراک "مندی” بھی شامل ہے-
لفظ مندی عربی زبان کے لفظ "ندا” سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہے”وس” یا نمناک، جو دراصل اس کے نرم گوشت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ مندی بنیادی طور "یمن” سے دیگر عرب ممالک میں منتقل ہوا ہے لیکن سعودی عرب میں اتنا مقبول ہے کہ بعض لوگ اسے سعودی کا روائتی خوراک سمجھتے ہیں- سعودی عرب کے علاوہ یہ مصر،ترکی اور متحدہ عرب امارات میں بھی شوق سے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔
"مندی” سعودی کے قبائلی علاقہ جات میں تقریبات کا ایک اہم جز مانا جاتا ہے اور مہمان نوازی اس کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے ایک سرحدی علاقے "ابھا” میں محنت مزدوری کرنے والے کیڑی گاوں کے ایک شخص فیصل صالح حیات نے کہنا ہے کہ سعودی کے لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں اور یہ روائتی خوراک ان کی دعوتوں کا اہم حصہ ہے- فیصل صالح خود بھی مندی بنانے کا ماہر ہے، ان کے مطابق زمین کے اندر لگے ایک تندور میں لکڑیاں جلائی جاتی ہے، جب اس کا انگار بن جائے تو اس کے اوپر چاول رکھا جاتا ہے، تندور کے سر پر ایک سریا میں کنڈوں کے ذریعے نمک اور زاغفران لگی گوشت رکھ کر ڈھکن بند کردیا جاتا ہے- تندور کے اوپر بوریاں اور کپڑے رکھے جاتے ہیں تاکہ اس سے ہوا باہر نہ نکل سکے-
جب مقررہ وقت پورا ہوجائے تو اسے باہر نکال کر ایک بڑے تال میں رکھا جاتا ہے اور گوشت اس کے اوپر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔
فیصل صالح حیات کا مزید کہنا تھا کہ دنبے کے عمر کے مطابق اسے تندور میں رکھا جاتا ہے،کچا دنبا ڈیڑھ گھنٹے میں تیار ہوجاتا ہے- جتنا ذیادہ دنبے کی عمر ہو تو اس حساب سے تندور میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے-
یہ شانگلہ کے اس گاؤں میں کیسے پہنچا؟
کیڑی گاؤں میں مندی زیادہ تر ہاشم علی کے گھر میں بنایا جاتا ہے ہے۔ ہاشم علی نے اس کے لئے اپنے گھر میں باقاعدہ انتظام کیا ہوا ہے۔
ہاشم علی نے بھی زندگی کی کئی بہاریں سعودی عرب میں گزاری ہیں اور اب واپس اپنے گاؤں مستقل طور پر آگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ اکثر جب گپ شپ میں ان سے مندی کے بارے میں سنتے تو خواہش کا اظہار کرتے کہ اسے یہاں بھی تیار کرنا چاہئے-
‘میں نے چونکہ سعودی عرب میں یہ کام کیا تھا، تو میں نے گھر میں ایک تندور بنایا اور اسی میں اب وقتا فوقتا یہاں پہ تیار کرتے ہیں- اکثر گاوں کے جوان جب پارٹیاں کرتے تو وہ آکر مجھ سے مندی تیار کرواتے ہے’ ہاشم علی نے بتایا۔
ہاشم علی نے مسکراکر اپنے بڑے بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ” کہ اب تو کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے بنانے میں ہم سے زیادہ ماہر ہوچکے ہیں”-
شانگلہ کے اس گاؤں میں صرف مندی نہیں بلکہ خوراک کے بہت سارے اشیاء سعودی عرب سے یہاں منتقل ہوچکے ہیں اور یہاں کے گھرانوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے اسی گاوں کے ایک مقامی دکاندار محمد یعقوب سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے خود تقریبا بیس سال سعودی کے شہر تبوک میں دکانداری کی ہے اور بہت سارے اشیاء جو ہم وہاں فروخت کرتے تھے اب یہاں بھی لوگ استعمال کرتے ہیں-
دکان میں موجود ایک چھوٹا سے ٹین سے بنا ڈبہ جس کے اوپر انگریزی میں "TAUNA” تونا لکھا تھا، اٹھاتے ہوئے یعقوب نے کہا کہ یہ سعودی میں لوگ استعمال کرتے ہیں،جس میں مچھلی کا پکاہوا گوشت ہوتا ہے، یہ ایک قسم کا ایمرجنسی خوراک ہے، جسے پیاز اور ٹماٹر کے تھڑکے میں ڈالا جاتا ہے-انکا کہنا تھا کہ یہ دراصل تھائی لینڈ کا پراڈکٹ ہے لیکن سعودی عرب میں اسکا استعمال ذیادہ ہوتا تھا اور اب یہ یہاں بھی لوگ خریدتے ہیں اس لئے دوکان میں رکھی ہے۔
محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ وہاں پہ لوگ کسی چیز کو استعمال کرے تو وہ یہاں بھی استعمال کرنے کا خواہش کا اظہار کرتے ہیں اسی وجہ سے یہ چیزیں یہاں پہ بھی منتقل ہوگئے-
رمضان میں یہاں کے دسترخوان میں ایک نیا ڈش بھی ہوتا ہے جسے بعض اوقات مہمان کو اس کا تعارف بھی کروانا پڑتا ہے-۔رمضان میں ہر گھر جس کا خریدنے کی استطاعت ہو وہ اس کو لازمی افطاری میں پیش کرے گا- سعودی سے آئے ہوئے لوگ اسے”شوربہ” کہتے ہیں-
شوربہ دلیہ کی طرح ہوتا ہے، جو کہ ایک بڑے سائز کے ڈبے میں پیک ہوتا ہے- "کوئیکر” کے نام سے مارکیٹ میں موجود یہ پراڈکٹ امریکی کمپنی نے بیسویں صدی کے ابتداء میں متعارف کروایا-2001 میں یہ کمپنی پیپسی کو نے خریدی جس نے اس کا نام تبدیل کرکے "کوئکر فوڈ” رکھ لیا- یہ مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچا جہاں سے یہ شانگلہ کے گاوں کیڑی میں بھی پہنچ گیا ہے۔
یہاں کے لوگ اس کو کچھ یوں پکاتے ہیں کہ تیل میں پیاز، ٹماٹر چکن کیوب اور قیمہ یا چکن کا تھڑکا تیار کیا جاتا ہے اور اس میں حسب ضرورت پانی ڈالا جاتا ہے، جب یہ بوائل ہونے لگے تو یہ دلیہ شامل کیا جاتا ہے اور کچھ وقت پکانے کے بعد یہ تیار ہوکر افطاری میں کھایا جاتا ہے-
محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ اب تو چونکہ انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ چیزیں ہر جگہ پہنچ گئی ہوں گی لیکن اس گاوں میں پچھلے 20 سالوں سے اس کا استعمال ہوتا آرہا ہے-
خوراک کے علاوہ یہاں کے زبان میں بھی کسی نہ کسی حد تک عربستان کا اثر پایا جاتا ہے- خصوصی طور پر جو لوگ خلیجی ممالک میں ذیادہ عرصہ گزار چکے ہیں وہ اکثر باتوں میں عربی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں-
ان الفاظ کے ساتھ یہاں کے تقریبا سارے لوگ اشنا ہے کیونکہ انہیں یہ بار بار سننے کو ملتے ہیں۔ آپ یہاں کے لوگوں سے اکثر موبائل کیلئے لفظ "جوال” کانام سنیں گے-
کیڑی گاؤں کے ایک نوجوان تاشن خان نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں اکثر لوگ جب محفل میں ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جو وہ وہاں موجود بچوں کے لئے غیر موزوں سمجھتے ہیں تو وہ الفاظ عربی میں بول لیتے ہیں۔ تاشن خان کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ان کی بھی خواہش پیدا ہوجاتی ہے کہ عربی سیکھ لے۔