یہ اکیلی ڈاکٹر ذکیہ کا معاملہ نہیں بلکہ سوات یونیوسٹی کی چھ سو طالبات کی عزت کا سوال ہے
رفیع اللہ خان
یونیورسٹی آف سوات کے وومن کیمپس کی پرنسپل اور شعبہ باٹنی کی ہیڈ ڈاکٹر ذکیہ احمد نے اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی اور دھمکیوں کے خلاف تھانہ کانجو میں درخواست جمع کی ہے لیکن کافی دن گزرنے کے بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سوات کے انتظامی عہدوں پر براجماں افراد کی طرف سے 2019 سے انہیں ہراساں کیا جاتا رہا جس پر انہوں نے پہلی دفعہ یونیورسٹی آف سوات کے وائس چانسلر کو 27 دسمبر 2019 کو تحریری شکایت بھی جمع کی لیکن بد قسمتی سے ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے بجائے انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی اور شکایت واپس لینے کے لئے دباو ڈالا گیا۔
ذکیہ نے بتایا کہ میں شکایت واپس لینا نہیں چاہ رہی تھی لیکن مجھے اتنا ڈرایا دھمکیاں گیا کہ ایک لمحے کو میں تیار ہو گئی کہ ٹھیک ہے میں شکایت واپس لے لیتی ہو لیکن ایک شرط پر کہ ملوث افراد معذرت کے دو لفظ لکھ کر دے دیں تاہم وہ معذرت سے انکاری رہے۔
ڈاکٹر ذکیہ نے بتایا کہ اس سارے معاملے کے بعد ایک فیک ای میل آئی ڈی سے ای میل موصول ہوئی جس میں مجھ سمیت کئی خاتون ویزیٹنگ لیکچررز پر سنگین نتائج کے بیہودہ الزامات لگائے گئے تھے جو ہمارے لئے ناقابل برداشت تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ای میل یونیورسٹی کے تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو بھی موصول ہوئی ہے تاہم ذکیہ نے بتایا کہ محظ دسمبر 2019 میں لکھے گئے شکایت کے نتائج بھگت رہے ہیں اور کچھ نہیں۔
ڈاکٹر ذکیہ احمد بتاتی ہے کہ جب انہیں محسوس ہوا کہ یونیورسٹی سے انصاف نہیں مل رہا تو وہ مجبوراْ شکایت لیکر پولیس کے پاس پہنچ گئی اور تمام ثبوتوں کے ساتھ تھانہ کانجو میں شکایت جمع کی۔ذکیہ نے بتایا کہ شکایت میں جو نمبرز درج کئے ہیں اس کی اور اس ای میل کی جس سے ہمیں ذہنی اذیت اٹھانا پڑی ہے اس کی تحقیقات کی جائے اور ملوث افراد کا تعین کیا جائے۔
ذکیہ احمد نے بتایا کہ تقریبا ایک سال سے جس اذیت اور کوفت میں مبتلا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے بتایا کہ اب انہوں نے قدم اٹھایا ہے اور آگے بڑھے گی وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی کیونکہ جو ان کے ساتھ ہوا ہے وہ کسی دوسرے ساتھ نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ صرف فی میل سٹاف کا نہیں ہے بلکہ وومن کیمپس میں 600 کے قریب لڑکیاں بھی زیر تعلیم ہے یہ معاملہ سوات یونیورسٹی اور اس میں موجود افراد کی عزت کا ہے اس لئے ملوث افراد کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی جرات نہ کر سکیں۔
اس حوالے سے جب یونیورسٹی آف سوات کے پی آر او رفیع اللہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میڈم ذکیہ نے درخواست میں جو موبائل نمبرز درج کئے ہیں اس میں چار نمبرز یونیورسٹی آف سوات کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے ہے۔رفیع اللہ کے مطابق دو موبائل نمبرز رجسٹرار محبوب الرحمان، ایک موبائل نمبر ڈپٹی رجسٹرار فیاض اور ایک نمبر پرووسٹ ڈاکٹر شاہد علی کا ہے جس پر وائس چانسلر نے چار رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں ایک میل پروفیسر اور تین خواتین پروفیسروں کو شامل کیا گیا ہے جو اس واقعہ کی تحقیقات کریں گے۔اس کے علاوہ یونیورسٹی میں قائم انٹی ہراسمینٹ کمیٹی کو بھی یہ کیس ریفر ہو چکا ہے وہ بھی اس کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں اور جو بھی رپورٹ سامنے آئے گی اس پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں جب ایس ایچ او تھانہ کانجو مجیب عالم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پولیس نے چار سے پانچ ہزار صفحات پر مشتمل دو مہینوں کا سی ڈی آر ریکارڈ نکالا ہے تاہم واٹس ایپ اور ای میل کی ریکارڈ کو چیک کرنے کے لئے ایف آئی اے کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔
یونیورسٹی آف سوات میں ہراسانی کا یہ پہلا واقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایک ویزیٹنگ خاتون لیکچرر نے جنسی ہراسانی کی شکایت یونیورسٹی میں جمع کی تھی جس پر ان کو بھی دھمکیاں مل رہی تھی اور ان پر دباو ڈالا جارہا تھا کہ وہ شکایت واپس لے لیں۔ کیس واپس لینے کی صورت میں ان کو مستقل کیا جائے گا۔
سوات کی سول سوسائٹی اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور اس واقع کو سوات کے ماتھے پر ایک بدنما داغ قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔