‘ہم غریب لوگ ہیں دن بھر مزدوری کریں یا بچوں کا خیال رکھیں’
سٹیزن جرنلسٹ محمد الیاس
خیبرپختونخوا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے سے والدین ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے اور اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں بھیجتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں جبکہ کچھ والدین نےبچوں کو سکول سے بھی اٹھادیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی زرمینہ بی بی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے دو بچیوں کو سکول سے نکال دیا ہے کیونکہ سکول ہم سے بہت دور ہے سکول آنے جانے کا بہت مسئلہ ہوتا ہے اوپر سے ان بچوں کے ساتھ زیادتی کےواقعات نے بہت ڈرا دیا ہےان حالات میں کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے اب تو دینی تعلیم کے لئے بھی مدرسے جاتےہوئے ان کے ساتھ بھائی جاتا ہے یا پھر میں خود ساتھ چلی جاتی ہوں اگر واپسی پر 10 منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو پھر دل میں خوف ہوتا ہے پریشان ہوتے ہیں کہ کیوں لیٹ ہوگئی کیا ہوا ہے دل میں عجیب طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں۔
واضح رہے کچھ روز قبل چارسدہ میں بھی ڈیڑھ سالہ بچی زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا ہے۔ زینب سے قبل بھی کئی بچیاں اور بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں اور کچھ کو تو زیادتی کے بعد قتل بھی کیا گیا ہے۔
پشاور کی رہائشی 65 سالہ آمنہ بی بی جو ایک گهریلو خاتون ہے کہتی ہے کہ انکے چار پوتے اور تین پوتیاں ہیں گھر سے نکلتے ہی دل میں اندیشہ ہوتا ہے کہ جلدی سے گھر واپس آجائے اب سکول جانے کے لیے بھی گاڑی پکڑی ہے۔
‘ آئے روز بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے ذہنی بیماری میں مبتلا کردیا ہے پہلے تو بچے اگر سارا دن بھی باہر کھلنے نکلتے تھے تو کچھ فکر و غم نہیں ہوتی تھی مگر اب تو قرآن پڑھنے کے لیے بھی جائے تو ڈر سا لگتا ہےاگر 10منٹ بھی دیر ہو جائے تو پریشان ہوتے ہیں کہ کب واپس پہنچیں گےاللہ کرے نظام دوبارہ ٹھیک ہو جائے’ آمنہ بی بی نے بتایا۔
خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق اس سال جنوری تا اگست 182 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ 134کیسز ڈی آئی خان میں 24 کیسز پشاور میں جبکہ 19 کیسز مردان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
38 سالہ انعام نے کا کہنا ہے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئی زیادتی کے واقعات نے جینا اجیرن کر دیا ہے ہم غریب لوگ ہیں دن بھر مزدوری کرے یا بچوں کا خیال رکھیں ہر وقت بچوں کی فکر ہوتی ہےکہاں ہوں گے کیسے ہوں گےطرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں غربت کی وجہ سے گهر میں بھی نہیں بیٹھ سکتے اور مزدوری بھی تو کرنی ہے مگر اب بچوں کو سکول لے جانے اور واپس لانے کا کام بھی اپنے سر لیا ہوا ہے کیونکہ ایسے حالات میں بچوں کو کسی اور کے ذمے نہیں چھوڑ سکتے حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے فیصلہ کرے ایسے مجرمان کو سخت سے سخت سزا دے جو دوسروں کے لئے نشان عبرت بنے۔
پاکستان میں بچوں کی فلاح اور تحفظ کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ‘ساحل‘ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس2019 میں خیبر پختونخوا میں ٹوٹل 185 بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے تھےجن میں 50 لڑکیاں اور 135 لڑکے تھے۔ گذشتہ سال زیادتی کے بعد قتل کے تین کیسز مردان، نوشہرہ اور کرم سے رپورٹ ہوئے تھے، ان 185 کیسز میں 248 ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔ سب سے زیادہ کیسز مردان اور پشاور 42، 42 کیسز سامنے آئے تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ملزمان کو سزا نہ دینے کی وجہ سے بھی ان کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ غریب شاه کا کہنا ہے ‘ ہمارے ہاں کوئی نظام ہی نہیں یہ لوگ جنسی زیادتی کے ملزمان کے لیے نیا قانون بنانا چاہتے ہیں جب کہ بحیثیت مسلمان اور ایک اسلامی ریاست کےنیا قانون بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ہمارے پاس تو اسلامی قوانین پہلے سے موجود ہے مگر صرف اس پر عمل ہونا چاہئےاگر اسلامی قانون کے مطابق زنا اور بدفعلی کرنے والے تین چار ملزمان کوسزا دی گئی ہوتی تو آج ہمارے اس پیارے وطن میں ایسے کیسز بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتے مگر افسوس کہ یہاں ایسے ملزمان بری ہوجاتے ہیں’
ان بڑھتے ہوئے واقعات نے معاشرے میں بہت خوف پھیلایا ہوا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے ماہرین کے مطابق جنسی زیادتی میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ان کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہےان کے مطابق زیادتی کے کیسز پہلے بھی اسی شدت کے ساتھ ہوتے تھے مگر والدین اور کمیونٹی عمومی طور پر ان پر خاموشی اختیار کر کے کیس کو دباتےجبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے جس میں تشویشناک پہلو زیادتی کے بعد بچوں کو قتل کرنا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر کے مطابق جنسی زیادتی کے کیسز میں جہاں تک پولیس کے کردار کا تعلق ہے تو وہ گرفتاری کی حد تک تو حوصلہ افزا ہے، لیکن جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو یہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
جہاں تک والدین میں شعور اور بیداری کا تعلق ہے تو اس میں کسی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن والدین کے لئے ہر وقت اپنے بچوں کا خیال رکھنا ممکن نہیں لہذا انکو چاہئے کہ اپنے بچوں کو خبردار کرے کہ انہوں نے کس طرح کب کہاں اور کیسے اپنے آپ کو بچانا ہے۔
عمران ٹکر کہتے ہیں کہ معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز خصوصی طور پر علماء کرام اور مساجد کے خطیب، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا آواز اٹھانا ہوگا جبکہ حکومت اور حکومتی اداروں کو قوانین عملی کرنا اور نظام کو مضبوط، مربوط اور مستحکم کرنا ہوگا، خصوصی طور پر پولیس، استغاثہ اور عدلیہ نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ کوئی قانون کے گرفت میں آکر بچ نہ نکل سکے۔ اسی طرح متاثرہ خاندان یا بچوں کے نفسیاتی اصلاح اور بحالی پر بھی توجہ دینا چاہیے۔
لیکن 65 سالہ سلطان جو ایک دکاندار ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں غربت زیادہ ہے شادیاں وقت پر نہیں ہوتی سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے اس لیے نوجوان اس غلیظ کام کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں اگر ہمارے ہاں یہ رسم و رواج اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے تو والدین بچوں کی جلدی شادی کرسکیں گے جس سے ان واقعات میں کافی حد تک کمی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا تقریبا ہر عمرکا بچہ گلی میں کھیلتا نظر آتا تھا، کچھ علاقوں میں تو مائیں بھی دروازے میں ہی بیٹھی بچوں کے کھیل دیکھ رہی ہوتی تھیں۔ اگر کوئی بچہ کھیلتا ہوا دور نکل جاتا تو لوگ خود بچہ لے کرگھر آجاتے، ماں ایک لگاتی اور پریشانی حل ہو جاتی تهی
لیکن اب مائیں بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیتیں، باہر جائیں تو کوئی اعتبارکے قابل نہیں۔ بچے محفوظ نہیں کہیں بھی باہر کھیلتے ہوئے بچے درندوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔