جنگلات کی کٹائی ایک سنگین مسئلہ مگر اس پر قابو پانا ممکن ہے
عبدالقیوم آفریدی
پاکستان میں جنگلات کی کٹائی نے بہت سے سرسبز و شاداب مناظر کو بنجر زمین میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگرچہ اس عمل کو تبدیل کرنے کے لئے بہت کم کام کیا گیا ہے لیکن پشاور یونیورسٹی کے نباتات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر کے اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ناممکن نہیں ہے۔
دنیا بھر میں ہر طرف جنگل کے متاثرہ حصے، جہاں لاگرز یا کاشتکار نے غارت گری کی ہے، کی بحالی ایک سست اور بظاہر نہ ختم ہونے والا کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔
پروفیسرعبدالرشید کی کاوشوں نے وادی سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقہ بازخیلہ کے خطے میں زندگی کی نئی سانس پھونک دی، پروفیسر عبدالرشید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مویشی پالنے اور زراعت کی افادیت کے بارے میں لوگوں میں احساس ہے کیونکہ لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ کمائی کا ذریعہ ہے لیکن وطن عزیز میں درخت کے بارے میں یہ احساس اجاگر نہیں کیا جا سکتا کہ جنگلات ہمارے لئے کتنا اہمیت رکھتے ہیں۔
عبدالرشید نے بتایا کہ اس چیز کو لیکر انہوں نے نہ صرف ہر جگہ عوام میں درخت لگانے اور جنگلات بڑھانے کی مہم شروع کی بلکہ انہوں نے ضلع سوات کے باز خیلہ علاقے کے ایک پہاڑ جو کٹائی کی وجہ سے بنجر ہو گیا تھا، مقامی افراد کے تعاون سے 2008 میں پہلا درخت لگا کر یہ عہد کیا کہ اس پہاڑ کو دوبارہ سر سبز اور شاداب بنائیں گے۔
پروفیسر عبدالرشید نے بتایا کہ سوات دورے کے موقع پر لوگوں سے درختوں کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بات ہوئی تو کچھ لوگوں نے امادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ زمین ہم دیتے ہیں اپ درخت لگانے میں معاونت کریں جب میں نے یہ سن لیا تو میں بے حد خوش ہوا اور اگلے ہفتے بازخیلہ کے پہاڑ جس میں صرف جڑی بوٹی اور چند غیر ضروری چھوٹے چھوٹے درخت تھے، ہم نے اسی پہاڑ کو دوبارہ سر سبز کرنے کا تہیہ کر لیا اور بارہ سال کے عرصے میں اس جگہ پر 18 ہزار کے درخت لگائے جو اب بڑے جنگل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درخت لگانا نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کیلئے مفید ہوتا ہے بلکہ زمین کی کٹائی کو بھی روک لیتا ہے، اسی جنگل کے نیچے آبادی کو بھی کوئی خطر ہ نہیں رہا جو کبھی ہر وقت فکر مند رہتے کہ بارش ہو گی اور لینڈ سلائیڈنگ ہو گی۔
انہوں نے کہا ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ایک کمزور قوم ہونے کے ناطے ہمیں سبز پاکستان کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک اچھا ماحول اور صاف ہوا رکھنے کے لئے کسی ملک کو اپنی زمین کا 25 فیصد سے زیادہ حصہ درختوں کیلئے مختص کرنا چاہئے، پاکستان میں یہ پہلے ہی سکڑ کر 2 فیصد سے بھی کم ہو چکا ہے۔
پاکستان میں ماہرین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طورپر ملک بھرمیں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔
ادارے کے مطابق 2002 میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے تاہم جنگلات پرکام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔
قومی جنگلاتی پالیسی 2015 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں 25 فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں صرف پانچ فیصد جنگلات محفوظ ہیں۔
پاکستان ہر سال نجی اور معاشرتی ملکیت والے جنگلات میں 27 ہزار ہیکٹر جنگل سے محروم رہتا ہے۔ یونین کونسل مدین سوات کے رہائشی اور سابق رکن صوبائی اسمبلی سید جعفر شاہ کہتے ہیں کہ ان کا گھر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے تاہم اس سال دریاکے کنارے سینکڑوں مکانات، دکانیں اور مارکیٹس کے علاوہ ایک مسجد بھی سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔
جعفر شاہ بتاتے ہیں کہ 2010 میں سیلابی ریلے کے باعث مدین، بحرین اور کالام کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہوا تھا، ہیلی کاپٹر کے ذریعے سامان پہنچایا جاتا رہا، حالیہ سیلاب کے نتیجے میں بیشتر کچے مکانات منہدم ہو گئے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آبادی میں اضافے کے باعث دریا کے کنارے سینکڑوں مکانات تعمیر کئے گئے ہیں، اگر دس سال بعد موسمیاتی تغیرات کے باعث سیلاب آتا رہا تو اگلے سالوں میں تباہی کے خدشات میں مزید اضافہ ہو گا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر ماحولیات و جنگلات اشتیاق ارمڑ نے رابطے پر بتایا کہ دنیا اس وقت ریگستان کی طرف جا رہی ہے، صوبے کے جنوبی اضلاع میں بارشیں پانچ فیصد کم ہیں، 2016 میں 15 فیصد بارشیں مزید کم ہونے کا خدشہ تھا، اس کے حل کیلئے صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ صوبے میں جنگلات بڑھائیں گے، بلین ٹری سونامی پراجیکٹ صوبہ خیبر پختونخوا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو کلائمیٹ چینج کو بہا لے جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کوویڈ 19، آب و ہوا میں تبدیلی، سیلاب، آ لودگی، صحرا، خشک سالی اور جنگلات کی کٹائی کیخلاف جنگ میں ملک کیلئے گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوا ہے، اس کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اس منصوبے کو سراہا ہے، پی ٹی آئی حکومت نے جرمنی کی بون چیلنج این جی او کے ساتھ مل کر اپنے ہدف کو پورا کر کے مقررہ وقت سے پہلے ایک ارب درختوں کے منصوبے کے تحت 2014-17 میں ریکارڈ تین لاکھ 48 ہزار ہیکٹر تباہ شدہ جنگلات کی بحالی کا کام مکمل کیا جو ملک کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف، بون چیلنج، آئی یو سی این، سی او پی۔21 اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بلین ٹری سونامی منصوبہ کو تسلیم کیا اور اس کی تعریف کی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق منصوبے کے تحت درختوں کی بقا کی شرح 88 فیصد ہے اور پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت فراہم کی گئی ہے۔
وزیرجنگلات نے مزید بتایا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے پہلے مرحلے میں حکومت نے 5 ارب روپے کی بچت کی ہے منصوبے کیلئے بجٹ میں 22 ارب مختص تھے جس میں اپنے تمام اہداف کو 17 ارب روپے مکمل کیا۔
انہوں نے کہا کہ جنگلاتی آرڈیننس 2002 کو نئے قبائلی اضلاع تک بڑھایا گیا ہے اور درختوں کے تحفظ کیلئے 38 نئی جنگلاتی چیک پوسٹیں قائم کی گئیں، باغات کی موثر نگرانی کے لئے گاؤں کی سطح پر دو ہزار 60 کمیٹیاں اور 200 خواتین آرگنائزیشنز تشکیل دی گئیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ بڑھتی آبادی کی لکڑی کی ضروریات کو پورا کرنے اور موجودہ جنگلات پر دباؤ کو کم کرنے کے علاوہ یوکلیپٹس درخت آبی علاقوں میں بہت مفید ہے۔
موجودہ وزیراعلی محمود خان، جن کا تعلق تحصیل مٹہ ضلع سوات سے ہے، نے اگست میں متاثرہ اضلاع کا دورہ کیا جنہوں نے اس موقع پر سیلابوں کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی قرار دیتے ہوئے ٹمبر مافیا کیخلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا اور کہا کہ اس ضمن میں ہم نے مستقبل کی پلاننگ کیلئے گزشتہ دور حکومت میں بلین ٹری سونامی شجرکاری کا منصوبہ شروع کیا اور اب مرکزی حکومت نے 10 بلین ٹری پلانٹیشن کا منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ موجودہ جنگلات کو بچایا جائے اور اس کو مزید فروغ بھی دیا جائے۔
مٹہ، بازخیلہ پرائیویٹ فارسٹ کے لئے زمین دینے والے ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ جب پروفیسر صاحب نے پہاڑ پر درخت لگانے کا مشورہ دیا تو پہلے تو کوئی اس بات پر یقین کرنے نہیں کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ جب لوگوں نے دیکھا کہ خشک پہاڑ پر زندگی واپس آنے والی ہے تو گاؤں کے لوگوں نے بھی اس تجربہ میں دلچسپی لینا شروع کیا اور اب دہائی بعد وہ خشک پہاڑ سرسبز جنگل ہے اور ساتھ وہی پرندے واپس آ گئے ہیں کیونکہ ان کا ٹھکانہ ہم انسانوں نے ہی تباہ کیا تھا۔
پروفیسر عبدالرشید نے کہا کہ درخت کے بغیر زندگی مشکل کیا ناممکن ہے اور اس کامیاب مہم کے بعد اب کئی مقامی زمیندار خشک زمین پر جنگل لگانے کے خواہشمند ہیں، ان پراجیکٹس پر بھی عنقریب مقامی لوگوں کی مدد سے ہم کام شروع کریں گے۔