پاکستان میں نوجوان معاشرے کا افسردہ طبقہ بنتے جا رہے ہیں، کیوں؟
معیزہ اقبال
کسی معاشرے کی ترقی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ترقی کس شے کا نام ہے، اس کی تعریف کیا ہو گی؟ عام طور پر لفظ ترقی سن کر ذہن میں سائنس و ٹیکنالوجی کا خیال آتا ہے مگر میرے نزدیک ترقی سے مراد صرف سائنس یا ٹیکنالوجی کی موجودگی نہیں بلکہ ترقی کا اصل یپمانہ اس معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی حالت اور روزمرہ زندگی میں سہولیات کا ہونا ہے۔
محض ذاتی آسائش یا مالی خوشخالی ترقی نہیں بلکہ اس سے مراد انسانی وجود کی وہ کیفیت ہے جس میں ایک مکمل شخصیت کی نشونما ہوتی ہو۔ اور وہ شخص معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بن سکے اور اس کی شخصی نشونما کا ثمر معاشرے کی ترقی کی صورت میں ظاہر ہو۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سائنس، تکنیکی، معاشی و اخلاقی معاملات میں بہتری کا یوں واقع ہونا کہ اس میں رہنے والوں کی Quality of Life میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اسے ترقی کہتے ہیں۔
نوجوان کسی بھی قوم کا بنیادی ڈھانچہ ہوتے ہیں۔ جس قوم کا نوجوان مضبوط ہو گا اتنی ہی وہ قوم ترقی کرے گی۔کسی بھی قوم کی تعمیر اور ترقی میں نوجوانوں کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔
تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک نے اپنی نوجوان نسل کو درست سمت میں استعمال کیا ان ممالک کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جوانی انسانی زندگی کی عمر بہار ہوتی ہے، اس عمر کا جوش، ولولہ اور قوت انسان کو کچھ کر دکھانے کا موقع دیتی ہے۔ جب ان کے ذہن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ سما جاتا ہے تب ان کی صبح و شام ملک و ملت کے نام ہو جاتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر ہندوستان کی درس گاہوں سے آزادی کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ جب ان نوجوانوں میں جراٗت جاگ جاتی ہے تو خالد بن ولید کو سیف اللہ کا لقب ملتا ہے۔ جب ان میں عصمت کی حفاظت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے تو سترہ سالہ محمد بن قاسم فاتح سندھ بنتا ہے۔
کسی بھی ملک کے نوجوان نہ صرف کل کے لیڈر ہوتے ہیں بلکہ وہ دور حاضر میں ہر شعبہ میں ایک اہم شراکت دار بھی ہیں۔ نوجوان ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں جو کہ ان کے پالیسی ساز ملکی ترقی کیلئے بناتے ہیں اس لیے نوجوانوں کو ترقی کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے میں نوجوانوں کی تخلیقی، علمی، معاشی، سیاسی اور سماجی صلاحیتوں کو ایک مضبوط اور مؤثر انداز میں استعمال کر کے ملک کو ترقی کے ٹریک پر گامزن کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان خوش قسمتی سے وہ ملک ہے کہ جس کی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بر عکس وہ ممالک جو نوجوانوں کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں وہ ممالک ہر شعبہ ہائے زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوان معاشرے کا افسردہ طبقہ بنتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈگریاں موجود ہیں لیکن ان کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ یونیورسٹیاں تو موجود ہیں مگر ان میں پیشہ ورانہ تعلیم کا فقدان ہے۔ سکول موجود ہیں مگر اشرافیہ اور غریب طبقے کے لیئے تعلیمی فرق موجود ہے۔ یکساں نظام تعلیم نہیں۔ پاکستان میں حکومت ہے مگر ایک مناسب پالیسی نہیں تاکہ ان مسائل کو حل کیا جا سکے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کرے اور قوم کے مستقبل کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ بصورت دیگر نوجوان تباہ کن راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ جن معاشروں میں نوجوانوں کو درست سمت میں ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں کیا جاتا ان معاشروں میں پھر جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں نوجوان بحثیت قوم تعمیری عمل سے دور ہو کر تخریبی عمل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پالیسی میکنگ اور وژن کا شدید فقدان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نیویارک میں 1925 میں پارکنگ پلازے بنے تو لوگوں نے سوال اٹھائے کہ ہمارے ہاں تو اتنی گاڑیاں ہی نہیں تو ان پلازوں کی کیا ضرورت مگر ریاست نے کہا کہ آنے والے برسوں میں ہمیں ان کی شدید ضرورت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لانگ ٹرم پلاننگ کی جاتی ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے ایک عام شہری اگلے دن کی پلاننگ نہیں کر پاتا۔ مزدور ایک دن کی دیہاڑی سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ سیاست دان کا وژن اس کے دورِ اقتدار سے آگے نہیں جاتا اور بیوروکریٹ، جج یا جرنیل کا وژن اپنی پوسٹنگ کی مدت سے آگے نہیں جاتا۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ ٹاسک یا کام جو اس نے شروع کیے ہیں ان کے ساتھ کیا بنے گا۔ پالیسیوں کے تسلسل کا شدید فقدان ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ آنے والی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسی کو رول بیک کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں ہم ترقی کی سمت بڑھ ہی نہیں پاتے۔
پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ قدرتی وسائل میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ زراعت اور بجلی کی کمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی سامنا ہے۔ اس طرح کے انتشار میں ملک و ملت کو اگر کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے تو وہ یہاں کے نوجوان ہی ہیں۔
نوجوان ہی وہ طبقہ ہیں جن کے کندھوں پر قوم کی تعمیر کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ نوجوانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔ ہر فورم پر نوجوانوں کو رواداری اور امن کی فضا کو قائم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہبی اور سیاسی رواداری کی کمی کی وجہ سے عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مخالفین کے خلاف مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی قیادت کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ان نوجوانوں کو مربوط پالیسی کے تحت ایک وژن دیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو تعمیری عمل کے لیے استعمال کریں اور ملک و ملت کو ایک عظیم مقام دلا سکیں۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
نوٹ: معیزہ اقبال بزنس گریجویٹ ہیں اور کراچی میں یو این ڈی پی کے ساتھ بطور یوتھ ایمبیسیڈر کام کر رہی ہیں