‘مہمند، زیارت ماربل سانحے جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں’
حضرت اللہ
پاکستان میں ٹیکنالوجی اس لیول پر نہیں پہنچی جو مزدور کا متبادل بن سکے، یہاں اب بھی بہت سارے کام ہاتھوں سے کئے جاتے ہیں جن کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں مشینری اور دوسرے خود کار آلے ایجاد کئے گئے ہیں. یہاں ہاتھوں سے کام کرنے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ جو کام وہ ہاتھوں سے کر رہا ہے اس کے لئے کوئی مشینری ایجاد بھی ہوئی ہے یا نہیں. یہاں مزدور تعلیم سے دور اپنے حقوق سے محروم زندگی گزار رہے ہیں. وہ جدید اعلی تعلیم تو کیا اپنے ہنر اور فن کی جدید تعلیم و تربیت سے دور ہوتا ہے. ایک سروے کے مطابق پاکستان میں %8 اور بنگلہ دیش میں %30 جبکہ چائنا میں %90 مزدوروں کو ہنر کی تعلیم دی جاتی ہے. یعنی ہم چائنا اور بنگلہ دیش سے بھی اس معاملے میں پیچھے ہیں. ‘سی آئ اے ورلڈ فیکٹ بک’ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں مزدور کی تعداد 57.2 میلین ہے جس میں %43 مزدور زراعت سے وابستہ ہیں. باقی %21 صنعت جبکہ %36 سروسز سے وابستہ ہیں. پاکستان کی معیشیت میں ان مزدوروں کا بلاواسطہ بڑا کردار ہوتا ہے کیونکہ ان مزدوروں کے زریعے کاشت کی جانے والی بہت سی چیزیں پاکستان سے دوسرے ممالک کو برآمد کی جاتیں ہیں. جو کہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ کسی ملک کو برآمدات سے بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے اسلئے کہ اس کو مال کے بدلے روپے ملتے ہیں.
3 فروری 2020 ‘دی نیوز انٹرنیشنل ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 783,308 ٹن کی چینی برآمد کی جس کی کل مالیت 70 میلین ڈالر بنتی ہے. یاد رہے کہ یہ اعداد وشمار اکتوبر 2018 سے جنوری 2020 تک 439.8 میلین ڈالر تھی. اس طرح پاکستان ‘بیورو آف سٹیٹسٹک’ کے مطابق جولائی 2020 میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں %14.4 اضافہ ہونے کے بعد اس سے ملنے والی رقم 1.272 میلین ڈالر رہی. یاد رہے کہ پاکستان نے سال 20-2019 میں 12.526 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمد کی تھی. پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکسٹائل کا %8.5 اشتراک ہے. اس طرح ‘دی نیوز انٹرنیشنل ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 125,000 ٹن کی آم ایکسپورٹ کیا جس کی قیمت 72 میلین ڈالر بنتی ہے. اس سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں جو ان ہی مزدوروں کے ہاتھ سنبھالے جاتے ہیں. اگر خدانخواستہ یہ برآمدات روک گئے تو حکومت کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید بڑھےگا اور یوں برآمدات اور درآمدات کے درمیان ایک بڑا گیپ پیدا ہوگا.
پاکستان 22کروڑ آبادی کا ملک ہے جس میں %63 نوجوان ہیں جن کی عمریں 30سال سے کم ہیں. کسی ملک کی میں نوجوانوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے. نوجوان چونکہ زرخیز اور توانا ذہن کے مالک ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو صحیح سمت میں استعمال کیا جائے تو بہت بڑا مثبت انقلاب ہوگا . اگر نہیں تو یہ غلط سمت بھی جا سکتے ہیں جو ملک کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا. کیونکہ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں پاکستان کے خلاف مسلح تنظیمیں ہیں جن کی اکثریت نوجوان ہوتے ہیں. پر اور خوشحال پاکستان کے لئے ان نوجوانوں کو صحیح راستے پر لگانے کی ضروت ہے. ان کو صحیح تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے. جو تعلیم نہیں حاصل کرتے ان کو ہنر سکھانے کی ضرورت ہے. ان میں اکثریت نوجوانوں کا تعلق محنت مزدوری سے ہوتا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے اور اپنے خاندان والو کے لئے روزی کماتے ہیں. جو ملک کی معیشیت اور ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں. چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اسلئے ان مزدوروں میں بڑا حصہ یعنی %43 حصہ زراعت سے وابستہ ہے. اس طرح ایک بہت بڑا حصہ دیہاڑی اور مزدوری سے وابستہ ہے جن میں ماربل کے کانوں، کارخانوں اور ٹرکوں میں مزدوری کرنے والے بھی شامل ہے. حکومت کو ان معدنیات سے سالانہ اربوں روپے کی آمدن کے باوجود ان مزدوروں کو مناسب تربیت نہیں دی گئی ہے. ان معدنیات میں سے ایک قبائلی ضلع مہمند میں موجود ‘زیارت ماربل’ کے نام سے مشہور ماربل کا ایک پہاڑ ہے جہاں تقریبا 36 ماربل کے کان ہیں جہاں سے روزانہ سینکڑوں ٹرک گاڑیاں نکلتی ہیں.
مقامی بیوپاریوں کے مطابق حکومت ہر سنگل ٹرک سے 3500 جبکہ ڈبل ٹرک 5500 روپے فی گاڑی ٹیکس وصول کرتی ہے جو کہ ایک اندازے کے مطابق 5سے 8 لاکھ روپے روزانہ بنتے ہیں. اس طرح واپڈا کو بجلی کے بل کی مد میں 2 سے 3 لاکھ روپے فی کارخانہ ملتے ہیں جو ماہانہ کروڑوں روپے بنتے ہیں. اتنی آمدن ہونے کے آمدن ہونے کے باوجود یہاں کان اور ٹرکوں میں مزدوری کرنے والے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں. یہاں سینکڑوں لوگ کاروبار کے لئے آتے ہیں لیکن لیکن حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے خطرات سے کھیلتے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ 7 ستمبر 2020 کو زیارت ماربل مہمند میں ایک بڑا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں 25 کے قریب مقامی اور غیر مقامی افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ 5 زخمی ہو گئے. مرنے والوں میں تمام نوجوان تھے جن کی عمریں 30 سال سے زیادہ نہ تھیں جبکہ ایک دو تو ایسے بھی تھے جن کی عمریں 18 سال بھی نہ تھی. جو کہ چائلڈ لیبر پروٹیکشن والے ادارے کی کارکردگی پر ایک سوال ہے. یہاں اس طرح کے واقعات کا خطرہ ہر روز ہوتا ہے لیکن قدرت کو منظور نہیں ہوتا. یہاں مزدوروں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں. کسی بھی ہنگامی حالت میں ڈاکٹرز، ایمبولینس یا ابتدائی طبی امداد کی کوئی سہولت موجود نہیں. اس کے علاوہ انسانی تقاضوں کی اشیاء پینے کا صاف پانی اور رہنے کے لئے صاف بستر موجود نہیں ہوتے . یہاں مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک بلکل نہیں رکھا جاتا. ان کے ساتھ کام کرتے وقت حفاظتی ٹوپیاں یا دیگر حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے. .
ان کے لئے کوئی صحت کا بیمہ نہیں تاکہ کسی حادثے کے وقت ان کا علاج یا مالی مدد کی جا سکے. یہاں سینکڑوں لوگ موت سے ہر وقت کھیلتے مگر ڈاکٹر کی سہولت اب تک موجود نہیں. یہ حکومت وقت اور ماربل ٹھیکیداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کے لئے ڈاکٹر کا بندوبست کرے. مگر یہاں اب تک کوئی لیبر لاء یا کوئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آنے کی زحمت گوارا نہیں کیا. یہاں مزدوروں کو مقررہ حد سے کم اجرت ملتی ہے. ان کو تنخواہ وقت پر نہیں ملتی جبکہ یہاں کم عمر بچوں سے وزنی کام کروائے جاتے ہیں. وزنی کام لینے کے باجود ان کو مناسب غذائیت والی خوراک نہیں ملتی اور نہ ہی کسی نے انکے لئے مناسب خوراک کی بندوبست بنانے کی ترکیب سوچھی ہے. مزدوروں سے روزانہ 10 سے 12 گنٹھے کام لیا جاتا ہے. یاد رہے کہ یہ حال صرف ماربل کے کانوں میں کام کرنے والوں کا نہیں بلکہ کارخانوں میں کام کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے.
یکم مئی کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم مزدور منایا جاتا ہے. لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دن کو مزدور کی چھٹی نہیں ہوتی بلکہ اس دن افسران اور دفتر میں کام کرنے والوں کی چھٹی ہوتی ہے. سال میں ایک دن مزدور کے نام پہ منانا مزدور کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا. ان کے لئے ہر دن آسان اور ہموار بنانے کی ضرورت ہے. ان کو معاشرے کے دوسرے لوگوں کے برابر لانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بچے بھی پڑھ بھی سکے اور مناسب غذا والی خوراک بھی کھا سکے. حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کے حقوق اور ان کی تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ یہ لوگ دلبرداشتہ نہ ہو. ان کیلئے ہر اسٹیٹ میں ڈاکٹر کی موجودگی یقینی بنائے. ٹھیکیداروں کو پابند بنایا جائے کہ ان کے لئے ہیلتھ انشورنس کروائے اور معذوری یا خدا ناخواستہ موت کی حالت میں بعد کی زندگی کا میکینزم بنایا جائے اور انکو ملنے والی مراعات کا تعین کیا جائے. ایک کمیٹی تشکیل دی جائے کہ ان لوگوں کی خوراک کی مینیوں، اجرت’ اور روزانہ کام کے دورانیے کی چیک اینڈ بیلنس رکھے. چائلڈ لیبر پروٹیکشن والے ادارے کی کارکردگی کو جانچا جائے اور ماہانہ پراگرس رپورٹ پیش کی جائے. مزورو کو ہنر کی تعلیم جائے اور ان کو اپنے حقوق سے آگاہ کرے. اگر کسی مزدور کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو ان کی شکایت کے لئے ایک مناسب اور آسان فہم طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ کسی مزدور کا استحصال نہ ہو. پہاڑوں میں معدنیات نکالنے کے کئے بارودی بلاسٹ کے لئے دن کا آخری وقت تعین کیا جائے اور باردوی بلاسٹ کرنے سے پہلے لوگو کو وہاں سے نکالا جائے تاکہ بلاسٹ کے دوران کوئی سانحہ پیش نہ ہو. اس طرح اگلے دن تک لوگوں کو بلاسٹ کے بعد کانوں میں نہ جانے دیا جائے تا کہ اگر بلاسٹ کے بعد پہاڑ پسلھنے کا خطرہ ہو تو وہ رات کو ہو جائے اور یوں قیمتی انسانی جانوں کی تحفظ کی جائے.