حضرات سے زیادہ خواتین کو بی آر ٹی کی یاد ستانے لگی
خالدہ نیاز
پشاور میں بی آرٹی کی سروس عارض طور پرمعطل ہونے کے بعد سواریوں اور خاص طور پرخواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پشاور شہر سے تعلق رکھنے والی شمائل نے بتایا کہ بسیں بند ہونے کے بعد وہ اکثر یونیورسٹی لیٹ پہنچتی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران شمائل نے کہا’ پہلے جب میں یونیورسٹی جاتی تھی تو ٹریفک مسائل کی وجہ اکثر لیٹ پہنچتی تھی لیکن بی آرٹی کی بسیں چلنے کے بعد پھر میں وقت پر پہنچتی تھی اور اس کے علاوہ میرے پیسے بھی کم لگتے تھے لیکن سروس بند ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر میرے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے’
یاد رہے بی آرٹی بسوں میں آگ لگنے کے واقعات کے بعد 16 ستمبر کو حکومت نے بسوں کو عارض طور پرمعطل کردیا ہے۔
ترجمان بی آرٹی کے مطابق بی آر ٹی کی بسوں میں لگنے والی آگ کی وجوہات پر تفتیش جاری ہے اور بسس بنانے والی کمپنی کی ٹیم مفصل انداز میں بسوں کا جائزہ لے گی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی کی ہر بس کو تکنیکی اعتبار سے مکمل کلئیر کرنے کے بعد بحال کیا جائے گا اور انسپیکشن مکمل ہونے تک بس سروس معطل رہے گی۔
شمائل نے کہا کہ اب سروس معطل ہے تو اس سے سواریوں کو کافی مشکلات درپیش ہے، جو لوگ مہنگا ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرسکتے تھے وہ آسانی سے بی آرٹی میں سوار ہوکے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے لیکن اب ان کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے، اب وہ لوگ دوبارہ سے مہنگی ٹرانسپورٹ میں سفر کررہے ہیں اور نہ صرف ان کا پیسہ برباد ہوگا بلکہ وقت کا بھی ضیاع ہوگا۔
بی آرٹی سروس بند ہونے سے نہ صرف شمائل کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ کئی اور خواتین کو مسائل درپیش ہے۔ سائرہ مفتی گلبہار کی رہائشی ہیں جو ایک این جی او میں کام کرتی ہیں۔
سائرہ کا کہنا ہے کہ اگر چی بی آرٹی نے بہت وقت لیا اور انکو اندازہ نہیں تھا کہ آیا یہ سروس خواتین کو فائدہ دے گا بھی یا نہیں لیکن جب یہ بسیں چلنا شروع ہوئی اور اس میں انہوں نے سفر کیا تو پتہ چلا کہ اس سے لوگوں اور خصوصا خواتین کو بہت فوائد مل رہے تھے۔
تقریباً 70 ارب روپے کی لاگت سے بننے والے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اس بڑے منصوبے کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے 13 اگست کو پشاور میں کیا تھا اور اس کے بعد ان بسوں میں آگ لگنے کے واقعات سامنے آنا شروع ہوگئے۔ بس میں آگ لگنے کا پہلا واقعہ 26 اگست کو پیش آیا جب ایک بس حیات آباد سٹیشن پر آکر رکی اور اس میں آگ لگ گئی۔
اس کے بعد تین اور 11 ستمبر کو بسوں میں آگ لگنے کے واقعات سامنے آئے جبکہ چوتھا واقعہ بدھ کو سامنے آیا جس کے بعد سے سروس کو معطل کیا گیا ہے۔
سائرہ نے بتایا’ بی آرٹی کی وجہ سے میں دفتر وقت پر اور بغیر کسی دقت کے پہنچ جایا کرتی تھی، سہولت یہ تھی کہ کم پیسوں اور کم وقت میں ہم اپنے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے، اس سے نہ صرف میں فائدہ اٹھارہی تھی بلکہ بہت زیادہ لوگ اس سے سفری سہولیات حاصل کررہے تھے کیونکہ کافی زیادہ لوگوں نے بی آرٹی میں سفر کرنا شروع کیا تھا، بسیں بہت صاف ہوتی تھی جبکہ پشاور میں اس سے پہلے ایسا کوئی پراجیکٹ نہیں آیا تھا جس میں لوگوں کو اتنی سہولیات دی گئی ہو لیکن جیسے ہی بی آرٹی بند ہوئی ان کو دھچکا لگا’
ترجمان ٹرانس پشاور کے مطابق ایک ماہ کے دوران بی آر ٹی سے 30لاکھ سے زائد لوگ مستفید ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ بی آرٹی کے بند ہونے سے سڑکوں پر دوبارہ رش بھی زیادہ ہوگیا ہے کیونکہ لوگوں نے دوبارہ مجبورا عام ٹرانسپورٹ کواستعمال کرنا شروع کردیا ہے جبکہ بی آر ٹی کی وجہ سے باقی سڑکوں پر بھی رش کم ہوگیا تھا کہ لوگوں نے بی آرٹی استعمال کرنا شروع کیا تھا۔
‘بی آرٹی بند ہونے سے میں خود پریشان ہوں کیونکہ ایک تو میرے پیسے بہت زیادہ لگ گئے اس کے علاوہ رش میں الگ خوار ہونا پڑتا ہے اور وقت پر بھی نہیں پہنچ پاتی’ سائرہ مفتی نے بتایا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان بسوں کا جائزہ لیا جائے کہ اس میں جو خرابیاں ہیں ان کو ٹھیک کیا جائے اور جلد سے جلد اس کو کھول دیا جائے تاکہ لوگ دوبارہ سے اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔