ٹرک آرٹ کو زندہ رکھنے کیلئے پشاور کے ایک آرٹسٹ نے مکانات کا رخ کر لیا
ٹرک آرٹ کی انفرادیت آج بھی برقرار ہے اور پشاور کے ایک آرٹسٹ نے اس فن کو زندہ رکھنے کے لئے مکانات کا رخ کر لیا ہے۔
گزشتہ پچیس سالوں سے اس کام سے وابستہ سیار خان کے مطابق ٹرک آرٹ سے جنون کی حد تک محبت نے مجبور کیا کہ فن کو مختلف چیزوں پر منتقل کر دوں کیونکہ اب ٹرکوں پر یہ کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہنرمند سیار خان کے مطابق ایک کمرے میں ایک طرف کی دیوار پر لوگ کام کو پسند کرتے ہیں جس پر دو سے تین دن لگتے ہیں اور یہ کام چند ہزار روپے میں کیا جاتا ہے جس میں دن کے حساب سے دیہاڑی بچ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مجھے مزدوری کے ساتھ اپنے فن کو زندہ رکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے کیونکہ دن بہ دن ٹرک آرٹ میں کمی آنے پر یہ کام دم توڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
سیار خان ٹرک آرٹ سے گھروں سمیت مختلف چیزوں کو بھی مقامی شوخ رنگوں سے مزین کرتے ہیں، ہر قسم کے برتن، جوتے، موبائل کور، پرس، موٹر سائیکل، پنکھے اور رکشوں سمیت کئی اشیاء پر ٹرک آرٹ بناتے ہیں جو اندرون ملک سمیت بیرون ممالک میں بھی لوگ پسند کرتے ہیں۔
اس کام سے منسلک لوگوں کے مطابق زیادہ کام بیرون ممالک سے آرڈر پر بنتا ہے جس میں زیادہ برتن ہوتے ہیں جو وہاں کے ریسٹورنٹس میں استمعال ہوتے ہیں۔
سڑکوں سے ہوتا ہوا گھروں میں پہنچنے والا ٹرک آرٹ اپنی مقبولیت تو برقرار رکھ پایا تاہم اس فن سے وابستہ فنکار کہتے ہیں کہ فن شناس افراد سمیت اگر حکومت بھی اس کام کو توجہ دے تو اس کام میں مزید وسعت آ سکتی ہے۔