2 ائیرکنڈیشنز چلانے والے گھرانے کا بجلی بل صرف 300 روپے، معاملہ کیا ہے؟
ناہید جہانگیر
پشاور میں واپڈا اہلکاروں سے تعلقات اور مبینہ رشوتوں سے امیر گھرانے اپنے بل چند سو روپوں تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ غریبوں کے بجلی بل ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ دستیاب اندرون شہر کے ایک گھر کے بجلی بل نے تمام کہانی بیان کر دی۔ 5 کمروں پر مشتمل گھر میں دو ائیرکنڈیشنز، فریج اور پنکھوں سمیت تمام برقی الات موجود ہیں جس کا بے دریغ استمال بھی کیا جاتا ہے لیکن گھرانے کا جولائی بجلی بل صرف 173 روپے آیا ہے۔ اسی گھر کے سامنے دو کمروں پر مشتمل ایک مزدورکار کے گھر کا بل ساڑھے 3 ہزار سے بھی زیادہ آیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں 33 سالہ مزدور کار محمد سلیم خان کا کہنا تھا کہ ان کا گھر 2 کمروں پر مشتمل ہے اور 2 پنکھے اور ایک فریج استعمال میں ہیں پھر بھی 3 سے 6 ہزار تک بل آتا ہے۔
انہوں نے بجلی چوری کے حوالے سے کہا کہ جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بااثر لوگ ہوتے ہیں اس لئے تو مہینے کے 3 یا 4 سو بل آتا ہے اور میٹر ریڈر آنکھیں بند کر کے اعلی حکام تک بات نہیں پہنچاتا ورنہ اس مہنگائی کے دور میں اتنے بڑے گھرانوں کا بل اتنا کم نہیں آتا۔
پشاور سمیت پورے خیبر پختونخوا میں جہاں لوگ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے نالاں ہیں وہاں ہر مہینے ارب روپوں کی بجلی چوری کی شکایات بھی عام ہیں جن پر واپڈا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
خیبر پختونخوا میں بجلی کی تقسم کار کمپنی پیسکو کے ترجمان شوکت افضل کے مطابق پورے خیبر پختونخوا میں ہر مہینے تقریباً 2 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت میں شوکت افضل نے بتایا کہ پچھلے 3 مہینوں میں تقریباً 2000 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن کے خلاف بجلی چوری کی شکایات تھیں۔
شوکت افضل کے مطابق میٹر ریڈر آج کل جو ریڈنگ کرتا ہے اس میں تقریباً بہت کم ہی شکایات سامنے آتی ہیں اور تقریباً 90 فیصد ریڈںگ فوٹو بل کے اوپر چھاپے جاتے ہیں، اگر میٹر فوٹو اور بل کے ریڈنگ میں فرق آ جائے تو پھر عملے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کو بروقت درست کیا جائے لیکن بہت ہی کم کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی غلطی سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ چوری شکایات کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ بجلی چوری کے بارے میں شوکت افضل نے کہا کہ جس گھر میں بجلی کی چوری کی جاتی ہے تو لائن مین تفصیل بتاتا ہے کہ فلاں گھر میں بجلی کی چوری ہوتی ہے اس کی اطلاع پر اس گھر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
سزا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ واپڈا کی جانب سے میٹر پر جرمانہ لگایا جاتا ہے، اگر یہ اطلاع ہو کہ میٹر میں کوئی گڑ بڑ کی گئی ہے تو واپڈا کی جانب سے اپنے حساب سے 3 مہینوں کا بل بنایا جاتا ہے جو اس گھر سے وصول کیا جاتا ہے لیکن جس کے نام میٹر ہوتا ہے اس کو سزا دینا واپڈا کےاختیار میں نہیں ہوتا، اس کو پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے کے بعد وہ جو سزا دیں، دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب سلیم الزام لگاتے ہیں کہ بااثر گھرانوں میٹر ریڈرز کو ماہانہ الگ رشوت کے طور پر کچھ پیسے دیتے ہیں تاکہ ان کی شکایت نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے میٹرز ٹمپر کئے ہوئے ہیں جو کہ اے سی سمیت بڑے بڑے برقی الات چلنے کے باوجود مہینے کے چند ہی یونٹس خرچ کرتے ہیں۔
‘بڑے بنگلے کا بل جب صرف 200 یا 300 روپے آتا ہے تو مجھ جیسے کم فہم کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ میٹر میں گڑبڑ ہے یا کنڈا لگتا ہے، تو یہ اندازہ میٹر ریڈرز کو کیوں نہیں ہوتا؟’ سلیم نے سوالیہ نظروں سے دیکھ کر کہا۔
اسی طرح پشاور کی مہ جبیں نے بھی شوکت افضل کے اس موقف کی تردید کی کہ بجلی چوروں کے خلاف شکایات نہیں آتیں۔ مہ جبیں کہتی ہیں کہ کتنی مرتبہ اس نے خود سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کی ہے لیکن کوئی ردعمل نظر نہیں آیا اور ان کے محلے میں 4 کمروں اور اے سی سمیت ایک گھر کا اس مہینے کا بل 3 سو 34 روپے ہے، اور ساتھ میں حیران کن طور پر بل پر وزیراعظم کا امدادی پیکج برائے چھوٹا کاروبار سکیم لکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے بل پر سبسڈی بھی دی گئی ہے جو کہ کورونا وائرس وباء اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے چھوٹے اور غریب گھرانوں کے لئے اعلان کیا گیا تھا۔ سبسڈی دینے کے لئے حکومت نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ جن گھروں کے بجلی بل کم ہیں بس وہی غریب ہیں اور یہ سبسڈی انہیں دینی ہے۔
سلیم اور مہ جبیں کا خیال ہے کہ بجلی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ 3 اور 4 سو روپے بل کا زمانہ نہیں رہا، آج کل تو نارمل بل بھی 2 سے 3 ہزار تک ہوتا ہے۔ لیکن جن گھروں کا بل 3، 4 سو ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چوری کر رہے ہیں اور اگر واپڈا اور پیسکو والے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔