عبدالولی خان یونیورسٹی مردان: غیرقانونی بھرتی کے الزام میں آٹھ افسران نوکریوں سے فارغ
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں غیرقانونی بھرتی کرنے کے الزام میں آٹھ افسران کو نوکریوں سے فارغ اور سات افسران کی تنزلی کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پندرہ افسران کی تنخواہوں سے سالانہ انکریمنٹ کاٹنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر میاں سلیم کے مطابق برطرف ہونے والوں میں گریڈ 20 اور 21 کے افسران بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی نے 2015 میں اشتہار نمبر 48 جاری کیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کے بانی اور سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی کے دورمیں دو سو مستقل اور 174 کنٹریکٹ ملازمین جن میں گریڈ سترہ تک کے ملازمین بھرتی کیے گئے تھے۔ ان بھرتیوں کے خلاف مختلف امیدواران جو درخواست اور ٹیسٹ کے باوجود بھرتی نہیں ہو سکے، انہوں نے نیب، گورنر خیبرپختونخوا اور پشاور ہائی کورٹ میں درخواستیں جمع کروائیں کہ یہ عمل غیر قانونی تھا۔
انہوں نے کہا کہ اشتہار نمبر 48 کے تحت یونیورسٹی کے چارسوکےقریب اہلکاروں کی بھرتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گزشتہ عرصے انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا تھا اور مبینہ طور پر میرٹ کیخلاف ان بھرتیوں کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تحقیقات مکمل کرکے اپنی رپورٹ پیش کی تھی تاہم یونیورسٹی کے بعض افسران نے اپنے خلاف ممکنہ کارروائی کو روکنے کے لئے ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر حاصل کیااور بعد ازاں سپریم کورٹ سے یونیورسٹی انتظامیہ نے رجوع کیاتھاجو چند روز قبل خارج ہوجانے کے بعد اب کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
رجسٹرار کے مطابق غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں آٹھ افسروں کو ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا ہے ان میں ڈائریکٹر آئی بی ایل قادر بلوچ , چیرمین فارمیسی ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اللہ ,ایڈیشنل کنٹرولر امتحانات عرش الرحمان ,اس وقت کے پرووسٹ اور موجودہ ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ ابرار خان پبی کیمپس کے کوآرڈینیٹر شفیق اللہ , پیر اسفندیار اور میجر ( ر ) ارشد خان کے نام شامل ہیں جبکہ متعدد افسروں کی تنزلی کے بھی احکامات جاری کردئیے گئے ہیں۔
یادرہے کہ ٹی این این نے یہ خبر بیس جون 2019کوبریک کیاتھا جس کو کسی اور میڈیا نے کور نہیں کیاتھا۔
واضح رہے عبدالولی خان یونیورسٹی سیاستدان عبدالولی خان کے نام پر ان کے نواسے اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلی امیرحیدر خان ہوتی نے سال 2010 میں قائم کی تھی جس میں اب دس ہزار سے زائد طلبا وطالبات پڑھ رہے ہیں جب کہ سولہ سو تک ملازمین ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔
اس وقت یونیورسٹی معاشی مسائل کا بھی شکار ہے جس کی وجہ سے پچھلے ماہ سے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ مالی بدعنوانیوں پر یونیورسٹی کے سابقہ اور بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹراحسان علی بھی نیب کے مختلف کیسز کا سامنا کررہے ہیں۔