کیا ٹریفک پولیس کی تعیناتی سے خیبر میں حادثات کم ہو سکیں گے؟
خالدہ نیاز
ضلع خیبر میں پہلی مرتبہ ٹریفک ہائے وے پولیس کو متعارف کروادیا گیا جنہوں نے باقاعدہ طور پر پٹرولنگ بھی شروع کردی ہے تاہم ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ حکومت کو پہلے ان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضلع خیبرکے ٹریفک ڈی ایس پی مظہر آفریدی نے کہا کہ 25 اہلکاروں کو تربیت دی گئی ہے جو سڑکوں پرتعینات ہونگے اور متنی ٹو طورخم ہائی وے کو کنٹرول کریں گے جبکہ 55 ایسے اہلکار پہلے ہی سے مقامی بازاروں میں ڈیوٹی کررہے ہیں اور وہاں ٹریفک سے متعلق معاملات کو سنبھال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہائی وے پر جو اہلکار تعینات ہونگے ان کاکام ٹریفک سے متعلق معاملات کو سنبھالنا، اوور لوڈنگ وغیرہ کو دیکھنا اور ٹریفک قوانین پر پابندی کے خلاف جرمانے عائد کرنا ہونگے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی ایس پی مظہرآفریدی نے بتایا کہ ان اہلکاروں کو فی الحال پانچ گاڑیاں موبائل ٹریکر اور وائرلس سیٹس بھی ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن اہلکاروں کو تربیت دی گئی وہ سب مقامی ہیں اور اس سے ہہلے خاصہ دار اور لیویز فورس میں ڈیوٹیاں سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو اختیارات پشاور میں ٹریفک اہلکاروں کو حاصل ہے وہی خیبرکے ٹریفک پولیس کو بھی حاصل ہونگے۔
ڈی ایس پی مظہر آفریدی نے بتایا کہ ہائی وے پر ٹریفک پولیس اہلکاروں نے جمعرات سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہے جبکہ مزید اہلکاروں کو بھی ٹریفک پولیس کی تربیت دی جائے گی اور ان کو پھر ہائی وے پر تعینات کیا جائے گا۔
مقامی صحافی محراب آفریدی نے ضلع خیبرمیں ہائے وے پولیس کی تعیناتی کو خوش آئند قراردیا ہے اور کہا ہے کہ پاک افغان شاہراہ پر ٹریفک پولیس کی پٹرولنگ سے ایک تو ٹریفک حادثات میں کمی آئے گی تو دوسری جانب کم عمر لڑکوں کی ڈرائیونگ میں بھی کمی آجائے گی کیونکہ ان کے پاس لائسنس نہیں ہوگا تو اہلکار ان کو ڈرائیونگ نہیں کرنے دیں گے۔
محراب آفریدی نے بتایا کہ پاک افغان شاہراہ پرمال بردار گاڑیاں ضرورت سے زیادہ سامان لاد کرافغانستان لے جاتی ہے تو ٹریفک پولیس پٹرولنگ سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کیونکہ ٹرانسپورٹرز اس بات کا خیال رکھیں گے کہ سب کام قانون کے مطابق کریں اگر نہیں کریں گے تو ان کو جرمانہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب طورخم زیرو پوائنٹ سے کارخانو تک ٹرانسپورٹرز کے مشر حاجی عظیم اللہ کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی تعیناتی سے پاک افغان شاہراہ پرٹریفک کے مسائل میں کمی آئے گی، جگہ جگہ سٹرک بند نہیں ہونگی جبکہ ٹرانسپورٹرز بھی قوانین کی پاسداری کریں گے۔
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے حاجی عظیم کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ٹریفک اہلکار اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو چالان دے جن کی سرے سے کوئی غلطی نہ ہو۔ ‘ اگر کسی ڈرائیور نے قانون کی خلاف ورزی نہ کی ہو اور اس کو جرمانہ کیا جائے یا پرچہ دیا گیا تو یہ زیادتی ہوگی کیونکہ یہاں پر پہلے ہی سے ٹرانسپورٹرز مشکلات کا شکار ہے’
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ پاک افغان شاہراہ پر باقی بنیادی سہولیات بھی فراہم کریں، یہاں کوئی ٹرمینل نہیں ہے اور باقی سہولیات بھی نہیں ہے۔ حاجی عظیم اللہ نے یہ بھی بتایا کہ ٹرانسپورٹرز پہلے ہی سے مسائل کا شکار ہیں زیرو پوائنٹ پر انکو بہت مشکلات کا سامنا ہے، گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں جمع ہوتی ہیں اور بھی بہت ساری رکاوٹیں موجود ہیں وہاں پر تو ایسےمیں اگرٹرانسپورٹرز کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام کو ٹرانسپورٹرز کے ساتھ بیٹھ کر اس حوالے سے ایک طریقہ کار وضع کرنا چاہیئے اور ان کو ٹریفک قوانین کی آگاہی بھی دینی چاہیے تاکہ وہ اس پر عمل کرسکیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خیبر ڈاکٹر محمد اقبال کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس کی تعیناتی سے پاک افغان شاہراہ پر ٹریفک کی روانگی بہتر ہوگی اور حادثات میں کمی آئے گی۔
واضح رہے کہ باقی چھ نئے ضم شدہ اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اورکزئی، باجوڑ، مہمند اور کرم میں پہلے سے ٹریفک پولیس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔