توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنے والا خالد جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
انسداددہشتگردی عدالت نے توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنے والے خالد کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ پشاورپولیس نے توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنے والے ملزم خالد کو انسداددہشتگردی عدالت میں پیش کیا۔
عدالت نے ملزم خالد کو3روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ خالد نے گزشتہ روز سیشن جج شوکت علی کے سامنے کمرہ عدالت میں طاہر نسیم کو قتل کیاتھا۔ طاہرنسیم پر توہین رسالت کا الزام تھا۔
طاہر احمد نسیم کو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے پیش کیا گیا تھا کہ خالد عدالت میں داخل ہوا اور اس پر فائرنگ کر دی۔ خالد نے فرار ہونے کی بجائے فوری گرفتاری پیش کردی تھی۔
طاہر نسیم پشاور کا رہائشی تھا اور کچھ عرصے سے توہین رسالت کے مقدمے میں جیل میں تھا۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق قتل ہونے والے شخص پر توہین رسالت کا کیس 2018 سے چل رہا تھا،قتل ہونے والے ملزم طاہر احمد نسیم پر آئین پاکستان کی دفعہ 295 اور دفعہ 198 سمیت 253 کے تحت مقدمہ نوشہرہ کے ایک رہائشی ملک اویس کی مدعیت میں 2اپریل 2018 کو تھانہ سربند میں درج ہوا تھا جس کے بعد پولیس نے کارروائی کے دوران 25 اپریل 2018کو ملزم کو گرفتار کرلیا تھا اور وہ جیل میں قید تھا۔
ملزم پر درج ایف آئی آر میں درخواست گزار کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ مذکورہ شخص طاہر احمد نسیم نے درخواست گزار کو فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیج دیا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنے عقیدے کا پرچار شروع کیا جس کے دوران اسے مناظرے کا چیلنج دیتے ہوئے پشاور بلایا گیا جب وہ پشاور پہنچا تو مناظرے کے دوران ملزم نے کہا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کا نائب ہے اور پندرہویں صدی کا مجدد ہے جبکہ درخواست گزار کے مطابق ملزم نے یہ بھی بتایا کہ ان کا ذکر قران میں بھی موجود ہے۔
مقدمے کے مطابق درخواست گزار نے لکھا ہے کہ اس بات کے ثبوت اس کے پاس موجود ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔اسی کیس کی سماعت کے دوران ملزم طاہر احمد کو جج کے سامنے قتل کیا گیا۔کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے بتایا کہ قتل کرنے سے پہلے گولی چلانے والا شخص یہی کہہ رہا تھا کہ یہ شخص احمدی ہے اور یہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے جس کے بعد انھوں نے پستول نکال کر ملزم پر فائرنگ کی۔