کوکی خیل متاثرین کو متاثرین تسلیم کرنے میں حرج کیا ہے؟
خالدہ نیاز
ضلع خیبر کے علاقے تیراہ راجگل سے جمرود نقل مکانی کرنے والے کوکی خیل متاثرین نے ایک بار اپنے مسائل کو اٹھایا ہے اور اپنے مطالبات کے حق میں جرگے اور احتجاج شروع کئے ہیں۔
اس سلسلے میں خیبر سیاسی اتحاد کے زیراہتمام گزشتہ 9 روز سے باب خیبر کے عقب میں دھرنا جاری ہے جس کے شرکاء نے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
کوکی خیل متاثرین نے 2011 میں آپریشن کے بعد اپنے علاقوں سے نقل مکانی کی تاہم 9 سال گزرنے کے باوجود بھی ان کو نہ تو متاثرین کا درجہ مل سکا اور نہ ہی باقی مراعات مل سکیں۔ متاثرین کا درجہ نہ ملنے کی وجہ سے کوکی خیل قبیلہ کن مشکلات سے دوچار ہے اس حوالے سے ہم نے چند متعلقہ افراد سے بات کی ہے۔
‘کوکی خیل متاثرین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، کئی خاندان غاروں میں رہ رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کو متاثرین کا درجہ بھی نہیں ملا اور ابھی تک در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں’ یہ باتیں جمرود شاہ کس سے تعلق رکھنے والے میرجان آفریدی نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہیں۔
کوکی خیل متاثرین کو کیوں متاثرین کا درجہ نہیں دیا جا رہا اس حوالے سے میر جان آفریدی نے بتایا کہ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ کوکی خیل قوم کے زیادہ تر متاثرین نے اپنے شناختی کارڈ جمرود کے علاقوں کے بنائے ہیں، ایسا انہوں نے اس لیے کیا ہے کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ کوئی حادثہ رونما ہونے کی صورت میں ان کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ تیراہ کا علاقہ یہاں سے بہت دور ہے’ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کو حکومت نے علاقے سے نقل مکانی کا نہیں کہا تھا بلکہ جب طالبان نے ان کے علاقوں پہ قبضہ کیا تو یہ لوگ خود ہی اپنے علاقوں سے نکل آئے، یہ لوگ بے سروسامانی کی حالت میں علاقوں سے نکل آئے تھے، اپنا سب کچھ، یہاں تک کہ مال مویشی اور کپڑے بھی چھوڑ کے آئے تھے۔’
میر جان آفریدی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ایف ڈی ایم اے کے ترجمان احسان داوڑ نے کہا کہ جو لوگ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کو متاثرین کا درجہ نہیں دیا جا رہا تو ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کے شناختی کارڈز پر تیراہ اور جمرود دونوں پتے موجود ہیں تو ان کو ہم متاثرین کا درجہ نہیں دے سکتے اور جب یہ متاثرین ہی نہیں ہیں تو ان کو مراعات بھی نہیں دے سکتے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کی اپنے علاقوں کو واپسی ہوئی ہے لیکن وہ خود واپس نہیں گئے جبکہ علاقوں کو واپسی کے بعد ایسے لوگوں کو متاثرین کی لسٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔
احسان داوڑ نے یہ بھی کہا کہ کوکی خیل متاثرین کی طرح شمالی وزیرستان کے علاقے شوال کے 7 ہزار تک متاثرین بھی ہیں، شوال کے لوگ 6 سال سے اپنے علاقوں سے باہر ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شوال سے تعلق رکھنے والے متاثرین کے شناختی کارڈز پر بھی دو پتے درج ہیں ان کو بھی ابھی تک متاثرین کا درجہ نہیں ملا۔ متاثرین کا درجہ پانے کے لیے یہ ایس او پیز سیفران، وفاقی حکومت اور گورنر نے بنائے تھے جس میں ان کا ادارہ کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب کوکی خیل متاثرین کے حقوق کے لیے سرگرم جماعت اسلامی کے زرغون شاہ کا کہنا ہے کہ باقی قبائلی ضلعوں کی طرح ضلع خیبر کے علاقے تیراہ راجگل کے متاثرین نے بھی حالات خراب ہونے کے بعد اپنے علاقے سے نقل مکانی کی اور جمرود کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی۔ سب سے زیادہ نقصان قوم کوکی خیل کا ہوا ہے لیکن 9 سال گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک ان کو متاثرین کا درجہ تک نہیں دیا گیا باقی مراعات تو بہت دور کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوکی خیل متاثرین بہت مشکلات سے دوچار ہیں اور اپنے مطالبات کے لیے کئی بار آوازیں بلند کی ہیں تاہم ان کی کوئی نہیں سنتا، ‘ان کے مسائل کو دیکھ کر جماعت اسلامی نے پہلا قدم اٹھایا اور تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور اب ہمارے ساتھ قوم کوکی خیل کے مشران بھی ایک آواز ہے۔’
ضلع خیبر میں آپریشن خیبر ون، ٹو، درغلم اور بیا درغلم سمیت کئی ایک فوجی آپریشن ہو چکے ہیں تاہم اب علاقے میں مکمل طور پر امن قائم ہے۔
قوم کوکی خیل کے مطالبات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے زرغون شاہ نے کہا کہ سب سے پہلے کوکی خیل قوم کے متاثرین کو اپنے علاقوں کو باعزت طریقے سے واپس کیا جائے، ان کو متاثرین کا درجہ دیا جائے، سروے ابھی تک وہاں نہیں ہوا وہاں سروے کیا جائے اور اس میں قومی مشران، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور جوانوں کو شامل کیا جائے، اس کے علاوہ فی خاندان کو 30، 30 لاکھ روپے امدادی پیکیج دیا جائے تاکہ وہ وہاں جا کر اپنے گھروں کو تعمیر کر سکیں جو تباہ حال پڑے ہیں اور ساتھ میں ان کو 9 سال سے جو راشن نہیں ملا وہ ابھی ان کو دیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں زرغون شاہ نے بتایا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے توسط سے کیے گئے سروے کے مطابق کوکی خیل قوم کے متاثرہ خاندانوں کی تعداد 18 ہزار ہیں جبکہ حکومت یہ تعداد کم بتاتی ہے۔
لیکن ایف ڈی ایم اے کے ترجمان احسان داوڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کا ادارہ حکومت کے ایس او پیز کے تحت کسی بھی علاقے کے لوگوں کو متاثرین کا درجہ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے شناختی کارڈز پر دو پتے ہوتے ہیں ان کو متاثرین کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، اس کے علاوہ شناختی کارڈ میں جو لوگ ایک ہی فیملی کے نام سے رجسٹرڈ ہیں ان میں سے ایک ہی شخص کو راشن مل سکتا ہے باقی راشن لینے کے اہل نہیں ہوتے۔
احسان داوڑ نے بتایا کہ ان کا ادارہ جب بھی متاثرین کو واپس بھیجتا ہے تو ان سے رضاکارانہ واپسی فارم پر دستخط لیتے ہیں پھر ان کو 25 ہزار روپے ریٹرن کیشن گرانٹ اور 10 ہزار ٹرانسپورٹ الاؤنس دیتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہ فارم سائن کئے ہیں لیکن واپسی نہیں کی اور اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کو متاثرین کا درجہ دیا جائے تو ان کو متاثرین کا درجہ اس لیے نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دستاویزات کے تحت تو ان کی واپسی ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ضلع خیبر کے گیارہ سو خاندان رجسٹرڈ ہیں جن کو باقاعدہ راشن بھی ملتا ہے اور باقی جو مراعات ہیں وہ بھی دی جا رہی ہیں۔
موجودہ احتجاج جو گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے زرغون شاہ نے کہا کہ ان کا یہ احتجاج تب تک جاری رہے گا جب تک قوم کوکی خیل کے مطالبات کو مان نہیں لیا جاتا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ان کی ڈی سی خیبر کے ساتھ بھی بات ہوئی ہے اور ان کو اپنے مطالبات سے آگاہ کیا ہے جنہوں نے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کوکی خیل قوم کے مطالبات متعلقہ حکام تک پہنچائیں گے۔
خیال رہے کہ کوکی خیل متاثرین نے اپنے مطالبات کے حق میں کئی ایک احتجاج کئے ہیں تاہم ابھی تک ان کو متاثرین کا درجہ نہ مل سکا۔ سیفران کے سابقہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے بھی کوکی خیل متاثرین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ دیگر متاثرین کی طرح کی ان کو بھی مراعات و سہولیات دی جائیں گی تاہم وہ وعدے بھی ایفاء نہ ہو سکے۔