خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پروفیسر ہمایوں ہمدرد، قلندر مومند کو جن کی غزل پسند تھی

عثمان خان

نوشہرہ کی سرزمین نے بہت سے ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اگر ہم ان تاریخی سپوتوں پر نظر دوڑائیں تو پشتو کے عظیم شاعر خوشحال خان خٹک سے لے کر انقلابی شاعر اجمل خٹک اور پھر پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک مرحوم اور اس طرح سعد اللہ جان برق، ڈاکٹر یار محمد مغموم خٹک، ڈاکٹر پرویز مہجور اور بہت ایسے درخشندہ نام جنہوں نے پشتو ادب میں اعلی درجے کی خدمات انجام دی ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔

اگر ہم موجودہ دور میں دیکھیں تو نوشہرہ کے مشہور علاقے خویشگی نے ایک ایسے فرزند کو جنم دیا جنہوں نے بہت کم عمر میں پشتو اور اردو ادب میں ایسے کارنامے انجام دیئے جس کا اعتراف ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے سب محقق، دانشور اور شعرا کرتے ہیں۔

پروفیسر ہمایون ہمدرد جو کہ دو دن پہلے 53 سال کی عمر میں پشاور کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال ایل آر ایچ میں دل کے عارضے کی وجہ سے وفات پا چکے ہیں لیکن انہوں نے ادب کے میدان میں جو کارنامے او خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔

ڈاکٹر ہمایون ہمدرد نے خویشگی پایان کے ایک غریب گھرانے میں پرورش پائی تھی اور میٹرک کے بعد ساری تعلیم انہوں نے پرائیویٹ حاصل کی تھی۔


ایک مرتبہ پشتو کے مشہور شاعر، دانشور اور نقاد قلندر مومند سے ڈاکٹر حنیف خلیل نے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ آپ شعرا میں ترقی پسند غزل کی توقع کس سے رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میری اس بات سے خفہ نہ ہونا لیکن مجھے خویشگی کے ہمایون ھمدرد کی غزل بہت پسند ہے تو اس سے ہم بخوبی ان کی شاعری کے مقام کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اس اعزاز کے اعتراف میں مرحوم ڈاکٹر ہمدرد نے اپنے شعر میں لکھا تھا۔
رښتيا كه قلندر د دغه دور بايزيد دے
همدرده زه دخوېشكو ارزاني پاتے كېدم

پشاور میں انگریزی روزنامے کے مشہور کلچر رپورٹر شیر عالم شنواری کے مطابق پروفیسر ہمایون ہمدر بنیادی طور پر ایک ترقی پسند (پروگریسو) شاعر تھے جس کا پتہ ان کی شاعری، ڈراموں اور تحریر سے چلتا ہے۔

شیر عالم شنواری بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر ہمایون ہمدرد نے ابتدا میں شاعری کا اثر اپنے گاؤں خویشگی سے تعلق رکھنے والے چاربیتہ کے مشہور شاعر میر حسن بابا سے لیا تھا۔ اس کے علاوہ ملا ارزانی مرحوم اور پروفیسر پرویز مہجور خٹک سے بھی انہوں نے اثر لیا تھا۔ ان کا تعلق بھی ڈاکٹر صاحب کے گاؤں سے تھا۔ آخر میں آپ قلندر مومند سے ملے اور ان کے ادبی مرکہ کی نشستوں میں شامل ہونے کے بعد ان سے بہت کچھ سیکھا۔

شیر عالم شنواری کے بقول آپ ایک ادیب، شاعر اور محقق کے علاوہ انتہائی ملنسار، عاجز اور خاموش طبع انسان تھے اور سچ یہ ہے کہ وہ واقعی ایک ہمدرد انسان تھے۔

پی ایچ ڈی اور ایم فل کے احوال اور عنوانات

ڈاکٹر ہمایون ہمدرد نے پشتو کی بہت مضبوط عوامی اور پرانی صنف ”چار بیتہ” (قطعہ) میں اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسز مکمل کی تھی، لیکن بدقسمتی سے بیماری کی وجہ سے اس کا پبلک ڈیفنس نہیں ہوا۔ آپ نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق میں چاربیتہ کی تقریباً بارہ اقسام، یا ہم کہہ سکتے ہیں بارہ شکلیں، کی بنیاد بیان کی ہے، اس کی تاریخ کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے اور اس میں جو فکر پڑی تھی اس کا اظہار بھی کیا ہے، اور اس زمانے کے چاربیتہ کے جو شعراء ہیں ان پر بھی تفصیلی کام کیا ہے۔


ایم فل مقالہ
مرحوم ڈاکٹر ہمایون ہمدرد نے خوشحال خان خٹک کی جانب سے ذکر کئے گئے ہنر پر ایم فل کیا ہے، ان کے ایم فل مقالے کا عنوان ‘ہنر د شعر د خوشحال خان’ ہے جو باقاعدہ طور پر شائع بھی ہوا ہے۔

شعری مجموعے
آپ کے شعری مجموعوں میں سپیلنی، گل گون، اور چینہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جو اہم ترین کام کیا ہے وہ اردو ادب کے مشہور شعرا کے کلاموں کے منظوم تراجم ہیں، اکثر لوگ ترجمہ کرتے ہیں لیکن وہ صرف نثر میں کرتے ہیں لیکن آپ نے منظوم تراجم کئے ہیں جن میں معروف و مانوس شاعر فیض احمد فیض کی کتاب ‘نقش فریادی’ کا منظوم ترجمہ بھی شامل ہے ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک او پروفیسر زبیر حسرت نے جس کے مقدمے لکھے ہیں اور اس نئے اسلوب اور قدم کی تعریف کی ہے۔

دوسرے پشتو تراجم میں بنگالی زبان کے مشہور شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے شعری مجموعے ‘گیتا نجلی’ اور مشہور شاعر ساحر لدھیانوی اور احمد فراز کی نظموں کے منظوم ترجمے شامل ہیں جو کہ کتابی شکل میں علیحدہ علیحدہ شائع ہوئے ہیں۔

نوٹ: آپ نے ان شعراء کا انتخاب ترجموں کیلئے اس لئے کیا تھا کہ یہ شعرا بھی ترقی پسند سوچ کے حامل تھے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے تھے۔

ایک منفرد ڈرامہ نگار
شعر، ادب اور تحقیق کے علاوہ پروفیسر ھمایون ہمدرد کو ریڈیائی اور ٹی وی ڈرامہ پر ملکہ حاصل تھا اور آپ کے ڈرامے سے ترقی پسند سوچ جھلکتی تھی کیونکہ آپ نے پشتو معاشرے کی فرسودہ روایات کو ڈرامے کے کرداروں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔

‘بی وزلہ’ ‘زول’ گریوان’ آپ کے مشہور ڈرامے ہیں جو پاکستان ٹیلی وژن پشاور سنٹر سے نشر ہوئے ہیں اور ایک ڈرامے پر آپ کو بہترین ڈرامہ رائٹر کا ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ آپ نے افسانہ نویسی کے میدان میں طبع آزمائی کی تھی اور اس میں ایک افسانہ ‘شناخت’ کے نام سے مشہور ہے۔

پروفیسر ہمایون ہمدرد موجودہ وقت میں گورنمنٹ ڈگری کالج کرک میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

مرحوم پروفیسر ہمایون ہمدرد چودہ دنوں سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بالآخر دو دن پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، آپ کے پسماندگان میں دو بیٹے، دو بیٹیاں اور ایک بیوہ شامل ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button