چاند تاروں کو چھونے کی آشا، آسمانوں میں اڑنے کی آشا
رانی عندلیب
رات کا پچھلا پہر تھا، چاروں طرف سناٹا اور بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ماحول میں خاموشی کی اجارہ داری تھی۔ کہیں کہیں سے ہمسائے کے بچوں کے رونے اور ماؤں کے ڈانٹنے کی آوازیں اس خاموشی کی چادر کو توڑ دیتیں۔ اس گھپ اندھیرے میں سامنے پڑے میز پر موم بتی ماحول میں روشنی پھیلا رہی تھی جسے دیکھتے ہوئے مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ موم بتی کی لو مجھے لہلہاتے کھیت میں ایک شوخ وچنچل لڑکی کے آہستہ آہستہ لہراتے دوپٹے کی یاد دلا رہی تھی کہ کہیں دور سے اس گیت
دل ہے چھوٹا سا چھوٹی سی آشا
کی آواز نے مجھے خیالوں کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کر کھڑا کر دیا،
دل ہے چھوٹا سا واہ
بچپن کا زمانہ
چھوٹی سی آشا
آشا ارمان کو کہتے ہیں۔ اسی ایک لفظ کی مٹھاس نے مجھے واپس اپنے گاؤں کے لہراتے کھتیوں اور اونچی نیچی پگڈنڈیوں اور سرسوں کے کھیتوں میں تتلیوں کے پیچھے اندھادھند دوڑنے کی یاد دلا دی۔
گاوں کی زندگی شہر کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے جہاں نہ صرف رہن سہن بلکہ میرے خیال میں یادیں بھی مختلف اور الگ ہوتی ہیں۔ آج جو ہم سب شہر کی چہل پہل میں کھوئے ہوئے اپنی زندگی کے دن رات کاٹ رہے ہیں ایسے میں کہیں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جو مجھے اپنے گاؤں کوٹک کی یادوں میں لے جاتا ہے جو شبقدر سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
دادا جان جب حیات تھے تو عید کے علاوہ شادی بیاہ یا دیگر خاص تقریبات کے لئے گاؤں جاتے تھے جو اب صرف یادیں ہیں۔
آج بھی رات کو لوڈ شیڈنگ اور گرمی کے ماحول میں اور ان آوازوں کے بیچ میں میری توجہ اس انڈین گیت کی طرف گئی
چاند تاروں کو چھونے کی آشا، آسمانوں میں اڑنے کی آشا
وہ دن ہی ایسے تھے کہ اس گانے کے بول کی انگلی پکڑ کر خیالوں کے پروں پر بیٹھ کر اپنے گاؤں کی سیر کو نکلی جہاں پر کھیتوں کے بیچ میں تانگے میں بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا، .کچے گھروں کے وسیع و عریض آنگن میں جھولا جھولنا، پھر وہ شادیوں کی محفلیں جو دو تین ہفتے پہلے شروع ہو جاتی تھیں، سب خاندان والے 2 ہفتوں سے پہلے شادی والے گھرمیں اپنے کپڑوں والے سوٹ کیس اور ضروری سامان کے ساتھ پہنچ جاتے، گویا یہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے ہی تھے .
مجھے آج بھی یاد ہے جب چچا کی شادی میں شرکت کے لئے ہم اپنے آبائی گاؤں دادا جان کے گھر پہنچے تو چچی، تائی، خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ہمراہ بڑے سے کمرے میں سامان کے ساتھ شادی کے بعد تک وہاں رہتیں جب تک شادی ختم نہ ہوتی۔
رات کے وقت تمام خواتین یعنی گھر اور محلے کی، کچے آنگن میں دائرے میں بیٹھ کر کسی برتن، پتیلے یا دیگچی، کو الٹا کر کے اس پر ڈول بجاتیں اور سب ٹوٹے پھوٹے اور آدھے گیت گاتے اور اس دوران چچی خالہ اٹھ کر سادہ سا پھیرا لگاتیں تو ہم خوش ہو کر تالیاں بجانا شروع ہو جاتے، اس کو ہم ناچنا سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں شادی ہال نہیں ہوتے تھے اور اگر تھے بھی تو وہاں شادیوں کا اتنا خاص رواج نہیں تھا۔ تمام تیاریاں گھروں میں چچی، ممانی اور خالہ پڑوسی کرتی تھیں اور باہر چچا، تایا، ماموں اور کزن وغیرہ کرتے تھے۔ اور گلی محلے کے لوگ، جو اس شادی کو اپنا گھر سمجھتے تھے، برتن اکٹھے کرتے تو کوئی شادی والے گھر میں چونا یا پوچا لگاتا۔
اور باہر بھی حجرے میں رباب اور "منگی” (گھڑے) کی بے ترتیب موسیقی ساری رات ہوتی۔ شادی والے گھر میں رنگ بھرنگی جھنڈیاں بھی محلے کے لڑکے لگاتے جس کا اپنا ایک خاص مزہ ہوتا تھا۔ ہم بچے اس سارے ماحول کے نشے میں مخمور اونگھنے لگتے اور پوری کوشش کے باوجود نیند سے ہار جاتے اور سو جاتے۔ کیا بے خبری تھی اور کیا بے غرضی اور بغیر لالچ کے بچپن کا زمانہ تھا۔
دادا جان کے گھر ایک مخصوص کمرہ تھا جب شادی یا عید کے دن ہم سب گاوں جاتے تھے تو اسی کمرے میں چچیاں ( جو گاؤں میں دادا کے ساتھ نہیں ہماری طرح شہر سے جاتی تھیں) اور ساری خالائیں اور میری امی بھی ٹین کے بکس جو اپنے ساتھ لے کر آتی تھیں، رکھ دیتی تھیں جس میں سب کے کپڑے اور ضروری سامان ہوتا تھا۔
وہ دن بہت سکون کے تھے۔ خلوص سے بھرا ہر رشتہ تھا لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہی تھی کہ بجلی کی چمک نے ماحول کو روشن کر دیا اور دیکھا تو میں گاؤں کے بچپن میں نہیں بلکہ شہر کے چکاچوند والے ماحول میں تھی۔.