پلازمہ عطیہ کرنے کا عالمی دن، یہ پلازمہ ہوتا کیا ہے؟
دعا آفریدی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں عطیہ خون کا عالمی دن کل منایا جائے گا، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں رضاکارانہ طور پر کیے گئے اس عمل کی اہمیت، حفاظت اور زندگیاں بچانے سے متعلق خون کے عطیات کی افادیت کو اجاگر کرنا ہے۔
مئی 2005 میں عالمی ادارہ برائے صحت کے 58ویں اجلاس کے دوران دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے وزراء بالخصوص شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات فراہم کرنے کے حوالے سے ایک متفقہ اعلامیہ تیار کیا گیا تھا۔
میڈیکل سائنس میں اسے Artificial Passive Immunity بھی کہا جاتا ہے یا اس عمل کو پلازمہ تھراپی بھی کہا جاتا ہے، دراصل پلازمہ انسانی خون سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ خون سے خلیے الگ کرنے کے بعد جو زرد رنگ کا مایع بچتا ہے اسے پلازمہ کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ خون میں 55 فیصد پلازمہ ہوتا ہے اور پلازمہ میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے جبکہ دس فیصد اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔
خیال رہے کہ جس طرح سانپ کے کاٹے کے لیے جو ویکسین استعمال کی جاتی ہے اس ویکسین میں سانپ کا زہر استعمال ہوتا ہے، اسی طرح کرونا سے متاثرہ شخص کے خون سے پلازمہ حاصل کیا جاتا ہے لیکن اس کے لئے سائنسدان اور ڈاکٹرز مختلف شرائط بھی سامنے رکھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پلازمہ صرف تشویشناک حالت میں مبتلا مریضوں پر آزمایا جاتا ہے۔ پلازمہ میں اینٹی باڈیز اور پروٹین شامل ہوتے ہیں، یہی پروٹین جب مریض کے خون میں شامل ہوتے ہیں تو مریض کی قوت مدافعت میں بہتری آتی ہے لیکن اس بات کی یقین دہانی مشکل ہے کہ یہ جلدی کام شروع کرے گا یا تاخیر سے کیونکہ یہ اپنا کام شروع کرنے میں ایک ہفتہ بھی لے سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق صرف وہی لوگ پلازمہ عطیہ کر سکتے ہیں جن کو کرونا وائرس ہو چکا ہو، وہ اب مکمل صحتیاب ہو چکے ہوں، کرونا سے صحتیاب ہونے والے شخص کا کرونا ٹسٹ دو تین بار نیگیٹو آ چکا ہو اور آخری نیگیٹو ٹسٹ رزلٹ کے بعد وہ چودہ دن تنہائی میں گزار چکا ہو۔
ڈاکٹرز یہ بھی کہتے ہیں کہ مریض کے بلڈ گروپ جیسا بلڈ گروپ تلاش کرنا بھی ضروری نہیں، اگر بلڈ گروپ مختلف ہو تب بھی پلازمہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ خون سے خلیے پہلے سے نکالے جا چکے ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے بھی ویکسین بنانے سے پہلے پلازمہ سے علاج کروانے کو ترجیح دی ہے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں پہلی بار پلازمہ کا علاج چین پھر امریکہ، برطانیہ اور اٹلی میں شروع ہوا تھا۔ آسٹریا میں بھی بیس سے زائد مریضوں کا پلازمہ کے ذریعے علاج کیا گیا ہے۔ بھارت کے شہر دہلی میں بھی اس طریقہ علاج کو آزمایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی پلازمہ کے ذریعے علاج کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ ڈاو میڈیکل یونیورسٹی کراچی نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے Immunoglobulins کے ذریعے کورونا کا علاج دریافت کر لیا ہے، بعدازاں 80 فیصد مریضوں کی صحتیابی کا دعویٰ بھی ایک معروف پاکستانی ہیماٹالوجسٹ کی جانب سے کیا گیا۔
پاکستان میں پہلی بار یحیی جعفری، کرچی سے پاکستان میں رپورٹ ہونے والے کورونا کے پہلے مریض، نے اپنا خون پلازمہ کے لیے عطیہ کیا تھا جس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ پلازمہ کیسے عطیہ کیا جاتا ہے۔
بعدازاں سندھ حکومت نے کئی ہسپتالوں کو پلازمہ تھراپی کی اجازت دی۔ اسی طرح ترجمان بلوچستان حکومت نے میڈیا کو بیان دیا ہے کہ بلوچستان میں تین تشویشناک حالت میں داخل مریضوں کو پلازمہ منتقل کیا گیا ہے جن میں ایک کی صحت اب بہتر ہو رہی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے بھی پلازمہ تھراپی کی منظوری دی ہے اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں پچاس لاکھ کی مشینری نصب کر دی گئی ہے۔ ایچ ایم سی نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کراچی کے ساتھ ایم او یو بھی سائن کی ہے۔ ایک پلازمہ پر حکومت کا بیس ہزار تک خرچہ آتا ہے اور ایک ڈونر کے پلازمہ سے چار مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے پلازمہ سے علاج کرنے کی اجازت دی ہے لیکن حکومت عوام میں آگاہی مہم چلانے میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے آج کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریض پلازمہ دینے سے ڈرتے ہیں حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلازمہ دینے سے ڈونر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان میں پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے ہیلپ لائن کا آغاز
کیا Remdesivir نامی اینٹی وائرل دوا سے کورونا کا علاج ممکن ہے؟
‘ہسپتال اس لئے نہیں جا رہی کہ کہیں قرنطینہ سنٹر میں ہی نہ ڈال دیں’
واضح رہے کہ پلازمہ کا استعمال کوئی جدید علاج نہیں بلکہ 1890 میں پہلی بار پلازمہ کا استعمال ہوا تھا۔ قبل ازیں گذشتہ صدی کی دوسری دہائی کے دوران جب سپینش انفلوئنزا آیا تھا اس میں بھی پلازمہ کا طریقہ آزمایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1976 میں کانگو اور 2014 میں افریقی ملک لایبریا میں ایبولا وباء اور 2003 میں چین میں سارس وائرس کی وباء کے دوران بھی پلازمہ کا استعمال کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر کے سائنسدان کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں لیکن ابھی تک جتنے بھی ویکسین تیار ہوئی ہیں وہ ٹیسٹنگ مراحل سے گزر رہی ہیں۔