میں نے منیرخان اورکزئی کو ایم این اے بننے کے بعد بھی رتی برابر بدلتا نہیں پایا
فیروز آفریدی
میں نے اسے بارگاہ الہی خانہ کعبہ میں زار و قطار روتے ہوئے بلکتے ہوئے پایا، پابند صوم وصلات عبادت گزار شروع سے ہرشخص کا کام آنے والا ملنسار اور عاجزی سے ہر کسی سے پیش آتے تھے، میں کسی اور کی نہیں بلکہ کرم کے علاقے مندوری سے تعلق رکھنے والے حاجی منیرخان اورکزئی کی بات کررہا ہوں۔
وہ ایک قبائیلی ملک ضرور تھے تین دفعہ ایم این اے بھی رہ چکے تھے پارلیمانی پارٹی کا لیڈر اور موجودہ ایم این اے تھے لیکن کبھی بھی عاجزی انکساری کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرنے والے انسان تھے۔
میری ان سے 36 سالوں سے دوستی تھی۔ ھم ایک ساتھ عمرے پر گئے تھے ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ ایک نہ تکنے والا انسان ،اللہ کے حضور عاجزی اور متانت کا پیکر، مجسمہ اخلاق بہت ہی پیارا انسان اس دار فانی کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
حاجی منیرخان اورکزئی شروع سے ہی ہمارے کام آنے والا بندہ تھا، جب یہ قطر میں روزگار کررہا تھا تب بھی یہ ہماری ادبی تنظیم پاک پشتو ادبی ٹولنہ کا نائب صدر سرپرست اور مالی مددگار و معاون تھا۔
چند روز قبل ان سے بات ہوئی کہنے لگے الحمد للہ میں بلکل صحت یاب ہوں، سب دوستوں اور بالخصوص نیاز مومند کو سلام کہنا۔ ایسا انہوں نے اس لیے کہا کیونکہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے لیکن انہوں نے اس وائرس کو شکست دی تھی اور بالکل صحتیاب ہوگئے تھے۔
حاجی منیرخان اورکزئی جہد مسلسل، امید اور کامیابی کا بڑا استعارہ ،تدبر، اخلاق شائیستگی صبر قناعت اور استقامت کا پہاڑتھے، جس طرح قطر میں ہمارے ساتھ شائیستگی اورمحبت سے پیش آتے تھے بالکل اسی طرح پاکستان میں کئی دفعہ ایم این اے بننے کے بعد بھی پیش آتے تھے ہم نے انہیں رتی برابر بدلتے ہوئے نہیں پایا، مجھے ہمیشہ پارلیمنٹ کے گیلری میں لیجانے کے لئے کہتے تھے۔
ایک دفعہ مشرف صاحب نے جب پشاور گورنر ہاوس کا دورہ کیا تھا تو حاجی صاحب مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے۔ انکے بڑے بھائی افضل خان صاحب جس کو ہم بھی اپنا بڑا بھائی سمجھتے تھے ہمارے ساتھ بلکل یکساں بھائیوں جیسے سلوک کرتے تھے، میں انکی ڈانٹ ڈپٹ میں انتہائی شفقت محسوس کرتا تھا۔ وہ جس طرح حاجی منیر مرحوم سے مخاطب ہوتے تھے اسی طرح ہم سب حاجی منیر مرحوم کے دوستوں سے بھی پیش آتے تھے۔
حاجی منیر سخاوت میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے بلکہ دونوں بھائی اپنے مثال آپ تھے۔ مجھے یہ چند الفاظ لکھنے میں دشواری پیش آرہی ہے لیکن میں آخر میں اتنا کہوں گا کہ حاجی منیر ایک سچے مومن کی طرح اپنی موت کے لئے بلکل تیار تھے، وہ انتہائی بہادر انسان تھے بہت سے عناصر انکی جان لینے کے درپے تھے لیکن جب بھی ان سے بات ہوتی تھی مسکرا کر کہنے لگتے اللہ نے جان دی ہے جب وہ چاہیں لے لیں گے۔ منیر خان اورکزئی پر چھ مئی 2013 کو وسطی کرم میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے اور حملے میں 18 افراد جاں بحق 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے حلقے میں دہشت گردانہ کاروائیوں اور منیر اورکزئی پر حملے کے بعد پانچ سال تک الیکشن نہیں ہوئے لیکن پھر بھی وہ سیاست اور لوگوں کی خدمت کرتے رہے۔
کھرا ایماندار اورہرحال میں شکر گزار رہنے والا یہ چہرا اب ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن انکے کام انکا نام اور لوگوں کے دلوں میں بنایا ہوا ان کا مقام ہمیشہ کرم، پشاور خیبر پختونخوا اور پاکستان کے تاریخ کے اوراق پر سنہری الفاظ سے لکھا جائیگا۔
الوداع یا حاجی منیر خان الوداع
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کریں
انا للہ و انا الیہ راجعون