وزیرستان میں ویڈیو لیک ہونے پر لڑکیوں کا قتل, مقامی صحافی خاموش کیوں؟
افتخار خان
شمالی وزیرستان میں ویڈیو لیک ہونے کے بعد غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کے قتل کے واقعے کو جہاں ملکی و غیر ملکی میڈیا میں کافی کوریج دی گئی وہاں حیران کن طور پر مقامی صحافی اور سماجی ورکرز اس پر خاموش نظر آ رہے ہیں۔
شمالی و جنوبی وزیرستان کے صحافی اور سماجی کارکن ویسے تو سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو رہتے ہیں اور علاقے میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے واقعے کی نہ صرف تفصیلات شئیر کرتے رہتے ہیں بلکہ انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر ماہرانہ رائے دیتے بھی نظر آتے ہیں۔
غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کے قتل کے حالیہ واقعے پر صحافیوں نے اپنے متعلقہ میڈیا اداروں کو خبریں تو بروقت پہنچائیں لیکن اس معاملے پر ان کے اپنے سوشل میڈیا پیجز اور اکاؤنٹس خاموش ہیں۔ اسی طرح بارودی سرنگوں سے لے کر ووٹ کے حق تک انسانی حقوق کے ہر معاملے پر برملا اظہار رائے کرنے والے مقامی سماجی ورکرز بھی نہ جانے کیوں اس واقعے پر لب کشائی نہیں کر رہے؟
اس حوالے سے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ لوگ دہشت گردی کے خلاف تو کھلم کھلا بول لیتے ہیں لیکن غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کے قتل پر سب صحافیوں کی ایک ساتھ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ یہ تمام مقامی صحافیوں کے درمیان ایک ایسے سمجھوتے کا نتیجہ ہے جس کے تحت علاقے کے امن کے لئے سب اس پر متفق ہیں۔
صحافی نے وضاحت کی کہ وزیرستان میں وزیر اور محسود دو بڑی اقوام ہیں۔ کسی ایک قوم کے ساتھ غیرت سے متعلق کوئی بھی معاملہ رونما ہو جائے اور دوسری قوم کا صحافی اس معاملے کو اچھالے تو لڑائی دو خاندانوں سے دو اقوام تک پھیل جاتی ہے جس میں بہت خون خرابے کا اندیشہ ہوتا ہے، اسی طرح متعلقہ قوم کا صحافی بھی پوری قوم اور قبیلے کی مخالفت نہیں مول لے سکتا اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ معاملہ لو پروفائل ہی رہے۔
شمالی وزیرستان کے جرنلسٹ نے اس سلسلے میں کوہستان کے واقعے کی مثال دی جس میں اب تک 8 یا 9 افراد قتل کئے جا چکے ہیں۔ وہ واقعہ بھی ایک ویڈیو کلپ لیک ہونے کے بعد پیش آیا تھا جس میں ایک لڑکا ناچ رہا ہوتا ہے جبکہ تین لڑکیاں اس کے لئے تالیاں بجاتی ہیں۔ ویڈیو لیک ہونے کے بعد وہ تینوں لڑکیاں اور لڑکا قتل کئے گئے تھے اور اس سلسلے میں آواز اٹھانے والے کئی اور افراد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
‘شمالی وزیرستان کا واقعہ بھی بالکل اسی طرح ہے، جن چینلز اور اخبارات کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں وہاں معلومات فراہم کرنا تو ہماری مجبوری ہے لیکن اس میں پھر اس طرح احتیاط کرتے ہیں کہ رپورٹ اپنے نام کے ساتھ پبلش یا نشر نہیں کرتے کیونکہ ہمہں اندازہ ہے کہ اگر ان معلومات کے ساتھ ہمارے نام آئے تو نہ صرف ملزم کا خاندان بلکہ سارا قبیلہ اور قوم ہمارے ساتھ کھلم کھلا دشمنی کرے گا کیونکہ ایسے معاملات کو صرف ایک خاندان نہیں بلکہ سارا قبیلہ اور قوم اپنی غیرت سمجھتا ہے’ صحافی نے بتایا۔
کیا مقامی صحافی و سوشل ورکرز اس وجہ سے خاموش تو نہیں کہ وہ بھی اس معاملے کو اپنی غیرت سے جوڑتے ہیں؟
مقامی صحافی نے اس موقف کی مکمل نفی کی اور کہا کہ لڑکیوں کے قتل کا یہ جو معاملہ ساری دنیا کے سامنے آیا ہے یہ صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنان ہی کی بدولت ہوا ہے۔ میڈیا میں اس خبر کو لیک مقامی صحافیوں نے ہی کیا ہے اور سوشل ورکرز نے بھی اگر مجبوری کے تحت کھلم کھلا اس کے خلاف باتیں نہیں کی ہیں تو دوسرے علاقوں کے سماجی ورکرز کو پوری معلومات دی ہیں اور دونوں طبقات پس پردہ پولیس کی مدد بھی کر رہے ہیں۔
پشاور میں کام کرنے والے شمالی وزیرستان کے ایک اور صحافی رسول داوڑ نے بھی اس بات کی تائید کی کہ علاقے کے تمام صحافی حضرات ایسے معاملات کو زیادہ نہ اچھالنے پر متفق ہیں جس کی وجہ مقامی امن و امان کے ساتھ ساتھ حکومتی مشینری کی ناکامی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں حکومتی ادارے اور بالخصوص سزا و جزا کا نظام اتنا مضبوط نہیں جس پر اعتماد کرکے ایسے معاملے کی مخالفت میں سامنے آیا جائے۔
رسول داوڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر بندوبستی اور ترقی یافتہ علاقوں میں بھی روزانہ کی بنیاد پر غیرت کے نام پر قتل مقاتلے کے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ملزم کی مخالفت بھی بسا اوقات لوگوں کو گراں گزرتی ہے تو اس کے مقابلے میں تو وزیرستان بہت پسماندہ علاقہ ہے جہاں تعلیم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے وہاں ایسی دشمنیاں مزید خطرناک شکل اختیار کرتی ہیں۔
رسول داوڑ نے دوسرے مقامی صحافی کی اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ کسی خبر کے نتیجے میں ایسے معاملات مزید خونریز ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ خاندانوں سے قبیلوں اور اقوام تک پھیل جاتے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کا غیرت کے نام پر قتل: کب کیا ہوا؟
گزشتہ چند مہینوں سے سوشل میڈیا بالخصوص وٹس ایپ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے پلین شام گڑیوم میں سیلفی ویڈیو جس لڑکے نے بنائی ہے وہ تین مقامی لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
رزمک پولیس سٹیشن کے اہلکاروں کے مطابق یہ ویڈیو تقریباً ایک سال پرانی ہے لیکن سوشل میڈیا پر ابھی اس لڑکے کے ایک دوست نے شئیر کی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس میں نظر آنے والی دو لڑکیاں جو آپس میں کزنز تھیں اور ان کی عمریں 16 اور 18 برس تھیں، انہیں اپنے چچا زاد نے گولیاں مار کر قتل کردیا جس کی پولیس نے بھی تصدیق کی اور کہا کہ یہ واقعہ جمعہ کے دن پیش آیا ہے اور قاتل فرار ہو گیا ہے جبکہ ان لڑکیوں میں سے ایک کے باپ اور دوسرے کے بھائی سمیت چار افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔
واقعے کے بعد ویڈیو بنانے والا لڑکا عمر آیاز اور تیسری لڑکی کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ دونوں غائب ہیں لیکن ابھی تک زندہ ہیں اور ان کی اولین ترجیح ان کی زندگیاں بچانا ہے۔
شمالی وزیرستان کے ڈی پی او شفیع اللہ گنڈاپور نے آج بروز پیر میڈیا کو بتایا کہ ویڈیو بنانے والا عمر آیاز اور سوشل میڈیا پر شئیر کرنے والا اس کے دوست کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ تفتیش و تحقیق کے بعد مزید تفصیلات ایک دو دن بعد عام کی جائیں گے۔