دلہن مردان میں منتظر دلہا دبئی میں کورونا کا شکار ہو کر چل بسا
عبدالستار
کرونا وائرس جس طرح انسانوں کی جانوں کے درپے ہے اسی طرح اس نے سماجی زندگی کو بھی درہم برہم کردیا ہے، اس وباء کے پھیلتے ہی پوری دنیا میں نظام زندگی ہر لحاظ سے متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کے لاکھوں شہری مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مزدوری کی غرض سے مقیم ہیں اور روزانہ کے حساب سے ہزاروں کی تعداد میں ان ممالک کو پاکستان کے شہریوں کا آنا جانا ہوتا تھا لیکن کرونا وائرس کی روک تھام کی غرض سے حکومت نے 24 مارچ کو اچانک بین الاقوامی پروازوں کو دو ہفتوں کے لئے معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان سے مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے علاقے زرقند بانڈہ میں بھادر خان کے گھر میں خاصی پریشانی پیدا ہوئی، ان کا بیٹا 24 سالہ شاہد خان دبئی سے چار سال بعد اپنے گھر آ رہا تھا اور 4,5 اپریل کو اس کی شادی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
پروازوں کی معطلی کا اعلان سنے کے بعد بھی شاہد خان کے والد بہادرخان نے شادی کی تیاریاں جاری رکھیں اور اس انتظار میں تھے کہ دو ہفتے گزرتے ہی ان کا بیٹا آ جائے گا۔
ادھر شاہد خان اپنے ملک پاکستان واپس آنے کے لئے ٹکٹ لے کر فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا لیکن فلائٹ بار بار کینسل ہو رہی تھی اور پاکستان کی جانب سے پروازوں کی معطلی مزید بڑھتی گئی لیکن گاﺅں میں ان کے والد نے فیصلہ کیا کہ شادی وقت پر ہو گی اور بیٹے کے آنے سے پہلے رسم نکاح بھی کر لیتے ہیں اور مقررہ تاریخ کو ولیمہ بھی دیں گے اور جب شاہد دبئی سے آجائے تو دلہن کو لے آئیں گے، مولانا صاحب کو لے کر خود اپنے بیٹے کی جانب سے وکیل بن کر نکاح بھی پڑھوا لیا لیکن جب دوبارہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی پروازوں کی معطلی کو مزید وسعت دی گئی تو بہادر خان نے دل پر صبر کا بڑا پتھر رکھ کر ولیمے کا پروگرام منسوخ کردیا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں شاہد کے چچازاد شیر علی خان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو علی الصبح ایک ایسی خبر آئی کہ پوری فیملی سکتے میں چلی گئی، ”شاہد خان کرونا وائرس سے دبئی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، یقین بھی نہیں ہو رہا تھا کہ پہلے کرونا وائرس کی وباء ان کی شادی میں رکاوٹ بنی اور اب اس کی موت کی وجہ۔”
"چچا نے شاہد کی شادی کے لیے دو بھینسیں بھی خرید رکھی تھیں اور چاول وغیرہ کا بھی بندوبست کیا تھا۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے خاندان کے کئی اور لڑکے بھی دبئی میں مقیم ہیں تو انہوں نے شاہد خان کے حوالے سے بتایا کہ 24 سالہ شاہد خان کمپنی کے کیمپ میں رہائش پذیر تھا، طبیعت خراب ہونے پر اپنے بھائیوں کے ڈیرے آ کر انہیں حالت بتائی تو اسے نزدیک ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ شاہد خان کا شوگر زیادہ ہوگیا ہے اور بلڈ پریشر بھی زیادہ ہے جبکہ وہ پہلے سے شوگر کا مریض تھا، ہسپتال انتظامیہ نے کرونا ٹیسٹ کے لئے بھی نمونے لئے اور چند گھنٹے بعد لواحقین کو بتایا گیا کہ شاہد خان کو کرونا وائرس بھی لاحق ہے جس کے بعد اسے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور 27 اپریل یعنی اتوار اور پیر کی درمیانی شب انہیں اطلاع دی گئی کہ شاہد خان وفات پا چکا ہے، پانچ افراد آ کر ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرسکتے ہیں جس کے بعد دبئی ہی میں اسے دفنا دیا گیا۔
شیر علی خان نے کہا کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ شاہد کی موت کرونا کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ وہ شوگر کا پہلے سے مریض تھا اور دوسرا دبئی کے سرکاری اہلکاروں نے ان کے بھائیوں اور دوسرے دوستوں کے بھی ابھی تک کرونا وائرس کے ٹیسٹ نہیں کرائے اور نہ اس ایریا کو یہاں کی طرح سیل کیا گیا ہے جبکہ بعد میں ہسپتال والوں نے شاہد خان کی موت کو طبی موت بھی قرار دیا۔
شیرعلی خان نے کہا کہ شاہد خان کی موت کی خبر آنے کے بعد جنازہ اور تدفین وہاں ہو گئی لیکن لوگ اب اس کی شادی کی جگہ فاتحہ خوانی کے لئے آ رہے ہیں۔
ٹی این این نے زرقند بانڈہ کے رہائشی اور دبئی میں مقیم علی گوہر سے رابطہ کرنے پر پاکستانی شہریوں کے حال احوال کے حوالے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دبئی میں کرونا وائرس کی تشخیص کے لئے بہترین انتظامات کئے گئے ہیں، تمام شاپنگ مالز، مارکیٹوں اور ہوٹلوں میں انٹری پر ہی سکریننگ کی جاتی ہے، کرونا وائرس کا ٹیسٹ بھی فری ہے جبکہ یہاں پر اجنبی اور عربی میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں کیا جاتا اور تمام لوگوں کو یکساں علاج معالجے کی سہولیات دی جاتی ہیں لیکن یہاں رہائش پذیر غیرملکیوں کو اس بیماری کے حوالے سے یا تو پتہ نہیں اور یا ڈر رہے ہیں کہ ہسپتال گئے تو وہاں بند کردیئے جائیں گے البتہ کرونا وائرس کے متاثرہ مریض ایک ہفتہ بعد صحت یاب ہو کر ہسپتالوں سے فارغ کر دیئے گئے ہیں۔
علی گوہر نے شاہد خان کی موت کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے اپنے کیمپ میں بیماری کی حالت میں پانچ چھ دن گزارے تھے اور بعد میں ہسپتال شفٹ ہوئے جہاں ان کی طبعیت کافی بگڑ چکی تھی، یہاں ہمارے پاکستانی خصوصاً ڈارئیور زیادہ پیسے کمانے کی غرض سے لمبی ڈیوٹی کے لئے نیند بھگانے والی گولیوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پھر کرونا وائرس کے بھی آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔
علی گوہر خان سے جب پوچھا گیا کہ وہاں پر پاکستانی سفارت خانہ اپنے شہریوں کے ساتھ کیا تعاون کر رہا ہے تو انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستانی سفارت خانہ مکمل طور پر بند جبکہ اپنے شہریوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھا جاتا، سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا کیونکہ پاکستان کے شہری اگر واپس جانا چاہتے بھی ہیں تو سفارت خانے والے 500 درہم کا ٹکٹ 2200 درہم میں دے رہے ہیں جو کہ ایک مسافر کے ساتھ سراسر زیادتی ہے، اس طرح کا ظلم کوئی دوسرا ملک نہیں کر رہا۔