بٹگرام سے پہلا، چترال میں کورونا کے مزید 3 کیسز رپورٹ
چترال میں مزید تین افراد کا ٹیسٹ مثبت آ گیا جس کے بعد ضلع میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چار ہو گئی۔
کو آرڈینٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر نثار اللہ کے مطابق آج تین مریضوں کا ٹیسٹ پازیٹیو آ گیا جبکہ تین مزید مریضوں کا ٹیسٹ مشکوک ہے ان کا ٹیسٹ دوبارہ کرانا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا وایریس کی مریضوں کی تعداد چار ہوگئی جن کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال کے ایسولیشن یونٹ میں داحل کیا گیا ہے اور یہ سب مریض وہاں زیر علاج ہیں۔
چترال میں کرونا وائرس کے نئے مریضوں کے نام یہ ہیں، شیر نواز ولد قدیر خان عمر 25 سال سکنہ بیرزین سکنہ گرم چشمہ، رحمت ولی ولد عزیز اللہ عمر 63 سال سکنہ چمرکن اور شمس الاکبر ولد عبد الغفور عمر 44 سال سکنہ چمرکن جبکہ 19 اپریل کو شہاب الدین نامی مریض میں تصدیق ہوئی تھی جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں زیر علاج ہے۔
ڈاکٹر نثار اللہ نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ تر گھروں پر رہیں، بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں، صفائی کا خاص خیال اور اچھی اور صحت مند خوراک کھائیں جو سبزی اور پھلوں پر مشتمل ہو، پانی کا زیادہ استعمال کریں اور زیادہ میل ملاپ سے اجتناب کیا جائے، یہ بہت تیز رفتاری سے پھیلنے والی بیماری ہے جس میں احتیاط نہایت ضروری ہے۔
دوسری جانب بٹگرام میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ہے جس سے علاقہ بھر میں خوف کا سماں پیدا ہو گیا ہے، کچھ دنوں قبل ڈی ایچ کیو ہسپتال میں انتقال کرنے والے صاحب شاہ نامی شخص کا کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے۔
نمائندہ ٹی این این کے مطابق کرونا وائرس کے باعث جاں بحق شخص کے اہلخانہ اور مرحوم صاحب شاہ کا علاج معالجہ کرنے والا ڈی ایم ایس ڈاکٹر رحیم کو قرنطینہ کردیا گیا اور علاقے میں مکمل کرفیو نافذ کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز حبیب اللہ انقلابی نامی ایک شخص نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل کی تھی جس میں چترال میں قائم قرنطینہ مراکز میں ایک بیڈ پر دو، دو مریضوں کو لٹایا گیا ہے جو خلاف قانون ہے، ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے چترال میں بہت جلد کرونا وائرس کی وباء پھیل سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
گن مینوں نے سبزی فروش کو مرغا بنا کر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا
کورونا وائرس: باجوڑ اور شبقدر میں پہلی اموات، کرم میں دو اور جاں بحق
اس سلسلے میں بار بار ڈپٹی کمشنر لوئر چترال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ڈپٹی کمشنر نے نہ فون اٹنڈ کیا اور نہ بات کرنے پر راضی ہوئے، دفتر جا کر ان کا موقف لینے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے ملنے سے بھی انکار کر دیا۔
بعض اطلاعات کے مطابق چترال اشیائے ضروریہ لانے والے ڈرائیور اور ان کے شاگردوں کی سکریننگ ہوتی ہے نہ یہ لوگ ماسک اور دستانے استعمال کرتے ہیں جس سے چترال میں کرونا وائرس کے پھیلنے کا حدشہ ہے۔