باجوڑ اور مہمند قبائل کے درمیان کشیدگی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
افتخار خان
باجوڑ اور مہمند قبائل کے درمیان 51 سال بعد ایک بار پھر حدبندی کے تنازعے نے شدت اختیار کرلی ہے جبکہ اس ضمن میں تشکیل پانے والا جرگہ ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔
جرگہ کی ناکامی کے بعد صوبائی حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دے دیا ہے لیکن باجوڑ کے عوام نے اس وقت تک کمیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جب تک مہمند مظاہرین کی جانب سے ان پر بند کیا گیا پشاور روڈ کھولا نہیں جاتا۔
دونوں اضلاع کے قبائل کے درمیان حالیہ کشیدگی چند دن پہلے اس وقت سامنے آئی تھی جب مہمند کی ضلعی انتظامیہ نے دربنڑو چیک پوسٹ پر دو لیویز اہلکاروں کو کورونا متاثرین کی سکریننگ کے لئے تعینات کیا لیکن باجوڑ کے ڈی پی او نے انہیں واپس روانہ کردیا کہ یہ علاقہ باجوڑ کا ہے۔
اس واقعہ کے بعد مہمند کے صافی قبیلہ کے درجنوں لوگوں نے دربںڑو چیک پوسٹ کی طرف مارچ کیا اور چیک پوسٹ کے سامنے مہمند ضلع کی جانب متنازعہ علاقہ میں دھرنا شروع کردیا اور پشاور جانے والی سڑک بند کردی جس پر باجوڑ کے لوگوں کا آنا جانا ہے۔
باجوڑ کے عوام کا خیال ہے کہ صافی قوم کا یہ دھرنا دراصل ناواگئی تحصیل کی حدود میں ہے اور یہ ان کے علاقے پر یلغار ہے جس کے بعد باجوڑ کے سینکڑوں لوگ بھی چیک پوسٹ کے سامنے احتجاجی طور پر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ علاقہ کیسے متنازعہ بنا؟
باجوڑ اور مہمند اضلاع کی سرحد پر تقریباً 12 ہزار کنال زمین متنازعہ ہے۔ اس متنازعہ علاقہ کی ایک جانب دربنڑو چیک پوسٹ قائم ہے جو باجوڑ انتظامیہ کے زیر نگرانی ہے جبکہ دوسری جانب مامد گٹ کے مقام پر مہمند لیویز تعینات ہیں۔
اس علاقے میں آباد زیادہ تر لوگ باجوڑ کے ترکھانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے شناختی کارڈز بھی باجوڑ کے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہاں پر مہمند کے شناختی کارڈ رکھنے والے بہت سے لوگ بھی رہائش پذیر ہیں۔
یہ علاقہ کیسے متنازعہ بنا؟ اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ مہمند ضلع سے تعلق رکھنے والے صحافی فضل ودود صافی اپنے علاقے کے ایک بزرگ (جو اب وفات پا چکے ہیں) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 110 سال پہلے تک یہ علاقہ باجوڑ کے محمد علی خان عرف مندالی خان کے زیرتسلط تھا اور انہوں نے مہمند اقوام سے زبردستی لیا تھا لیکن 1912 میں مندالی خان کی ذاتی فوج کے ساتھ ایک خونریز لڑائی کے بعد مہمند اقوام نے ان سے یہ قبضہ چھڑوایا تھا۔
ان کے مطابق بعد میں مہمند قبائل نے یہ علاقہ مندالی خان کے مخالف باجوڑ کے ایک دوسرے خان احمد جان کے حوالے کردیا تھا جنہوں نے کچھ عرصہ بعد خود اس پر قبضہ جما لیا اور تب سے یہ علاقہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔ 1969 میں مہمند اقوام اور احمد جان کے خاندان کے درمیان اس وقت دوبارہ کشیدگی نے جنم لیا جب متنازعہ علاقے سے گزرنے پر ان سے محصول لیا جانے لگا۔
1974 میں مہمند اقوام اور احمد جان کے بیٹے اور سابقہ سینیٹر بسم اللہ جان سمیت دیگر افراد کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت دونوں اضلاع کی حدبندی کی گئی جس کے تحت غلجو جوڑ کو سرحد قرار دیا گیا جو کہ دربنڑو چیک پوسٹ سے تقریباً 3 سے 4 کلومیٹر تک آگے باجوڑ کے اندر ہے۔
مہمند قبائلی مشران کے مطابق حدبندی کے بعد سے دونوں اطراف کے عوام نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور دونوں اضلاع کے لوگ اس متنازعہ علاقے میں آباد ہونے لگے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ مہمند قبائل کے لوگ یہاں کے اصلی باسی ہیں جبکہ جو لوگ باجوڑ ناواگئی سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں ان پر احمد جان خان اور ان کے بیٹوں نے چوری چھپے زمینیں فروخت کی ہیں۔
باجوڑ کے عوام کا موقف
ناواگئی اور مامد گٹ کے درمیان زمین کے اس متنازعہ حصے کے حوالے سے باجوڑ کے باسیوں کا الگ موقف ہے۔ باجوڑ کے معروف قبائلی مشر اور باجوڑ کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے مولانا خانزیب کہتے ہیں کہ یہ متنازعہ علاقہ دراصل ناواگئی تحصیل کا حصہ ہے جو کہ اٹھارہویں صدی سے ترکھانی قبائل کے زیرتسلط تھا۔
ان کے مطابق اس وقت صافی قبیلہ کے لوگ ترکھانی خانی (ریاست) کے وفادار تھے جبکہ 1912 میں دونوں کے درمیان کشیدگی قتل مقاتلے کے ایک کیس کی وجہ سے پیدا ہوئی جب ترکھانی قبیلے کے خان اور ناواگئی ریاست کے سربراہ محمد علی نے دروازگئی کے مقام پر چند قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے تو قنداروں کے لوگ ان سے الجھ پڑے اور اس دوران لڑائی میں 50 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے۔ بعد میں صافی قبیلے نے ناواگئی پر لشکرکشی کی اور محمد علی خان کو لڑائی میں شکست ہوئی جس کے بعد محمد علی خان کے بھائی احمد جان خان کو ناواگئی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
مولانا خانزیب فضل ودود صافی کے اس موقف کو مسترد کرتے ہیں کہ احمد جان اپنے بھائی محمد علی کے مخالف تھے اور انہیں صآفی قبیلے نے اس علاقے کا سربراہ بنایا تھا بلکہ یہ خاندان کے درمیان خان ازم (سربراہی) کا ایک تسلسل تھا۔
1969 کے تنازعے کے حوالے سے مولانا خانزیب کہتے ہیں چونکہ اس وقت خار ہیڈکوارٹر پاکستان حکومت کے زیرتسلط تھا اور جب ناواگئی کے خان نے بھی پاکستان کے ساتھ شمولیت کا اعلان کیا تو صافی قبیلہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی کہ اس سلسلے میں ہم سے صلاح مشورہ نہیں لیا گیا۔ اسی وجہ سے ناواگئی کے خانان اور صافی قبیلے کے درمیان لڑائی میں کئی اموات ہوئی تھیں اور تب سے یہ زمین یونہی بنجر ہے کیونکہ بڑی لڑائی کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اس میں فائرنگ ہوتی رہتی ہے۔
باجوڑ کے قبائلی سربراہ کا دعویٰ ہے کہ کاغذات میں یہ تمام زمین ترکھانی قبائل کے عوام کی ملکیت ہے اور یہاں جو صافی یا دیگر مہمند اقوام آباد ہوئی ہیں انہوں نے ترکھانی قبائل ہی سے ہی کچھ زمینیں خریدی ہے جس سے اس کے اصل مالکان کا ثبوت ملتا ہے۔
حالیہ کشیدگی کا اصل محرک
حالیہ کشیدگی کا اصل محرک دربنڑو چیک پوسٹ پر مہمند لیویز کی تعیناتی اور ان کی واپسی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
یہ کشیدگی چند مہینے پہلے مامد گٹ کے مقام پر نئے قائم کئے جانے والے کیڈٹ کالج کی وجہ سے سامنے آئی۔ جب کالج کا نام مہمند کیڈٹ کالج رکھا گیا تو باجوڑ کے عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کیا کہ چونکہ کالج دونوں اضلاع کی سرحد پر بنا ہے اس لئے اس کا نام کسی ایک ضلع کے نام پر نہیں بلکہ مامد گٹ کے نام پر رکھنا چاہئے۔ باجوڑ کے عوام کا یہ مطالبہ منظور کر لیا گیا اور کیڈٹ کالج سے مہمند نام کا بورڈ ہٹا کر مامد گٹ لگوا دیا گیا۔
دونوں اضلاع کی کشیدگی کے حل کے لئے کوشاں لعل بادشاہ صافی کا کہنا ہے کہ کیڈٹ کالج کا مسئلہ صرف نام کا نہیں تھا بلکہ دراصل یہ داخلوں اور ملازمتوں کی ان مراعات کا معاملہ تھا جو کیڈٹ کالج کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان مراعات پر اب دونوں اضلاع کے مساوی حقوق تسلیم کرلیے گئے ہیں۔
کیڈٹ کالج کا نام مہمند سے مامد گٹ کرنے کے خلاف مہمند قبائل نے بھی احتجاجی تحریک شروع کردی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے مطالبات سرد پڑنے لگے لیکن باجوڑ عوام کے خلاف دلوں میں پیدا کدورت کم نہ ہوئی جس کا انہوں نے برملا اظہار دربںڑو چیک پوسٹ سے لیویز کی واپسی کے ساتھ لشکر کی شکل میں وہاں پہنچنے اور روڈ بند کرنے کی صورت میں کیا۔
دوسری جانب مہمند قبائل کے متنازعہ علاقے کی طرف سینکڑوں کی تعداد میں آمد دیکھ کر باجوڑ عوام بھی جمع ہوگئے اور چیک پوسٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ اس وقت دونوں اضلاع کے لوگ چیک پوسٹ کے دونوں اطراف 150 میٹر کی دوری پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور دونوں اطراف کے لوگ کافی مشتعل دکھائی دے رہے ہیں۔
صلح کے لئے کوششیں
باجوڑ اور مہمند کے ڈپٹی کمشنران نے معاملے کے حل کے لئے دونوں اضلاع سے 20، 20 ارکان پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا ہے لیکن پہلے روز جرگہ ناکامی سے دوچار ہو گیا ہے۔
اس حوالے سے لعل بادشاہ صافی اس جرگے کی تشکیل ہی کو ٖغلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں فریقین ہی کو ثالث بنایا گیا تھا اور ایسا جرگہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ آدھے لوگ اگر ایک بات کریں گے تو لازماً باقی آدھے اس کے خلاف جائیں گے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے لعل بادشاہ نے مزید بتایا کہ جرگہ میں شامل کیے گئے بعض افراد سنجیدہ بھی نہیں تھے اور ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا پر آکر متنازعہ بیانات دیتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ چند عناصر دونوں اطراف دھرنوں کے شرکاء کو اشتعال دلا رہے ہیں لیکن امید ہے کہ معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرلیا جائے گا۔
باجوڑ کے قبائلی رہنما مولانا خانزیب بھی لعل بادشاہ سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مظاہرین میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نفرت اور اشتعال پھیلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ نفرت انگیز تقاریر کر رہے ہیں جن کا راستہ فوری طور روکنا ہوگا، کہیں ایسا نہ وہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سرحدات پر تنازعات ہر جگہ سامنے آتے ہیں خواہ وہ ممالک ہوں، صوبے ہوں، اضلاع ہوں یا قبائل، لیکن ان کا حل باتوں اور مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جاتا ہے۔ یہاں بھی اگر کچھ لوگ باجوڑ اور مہمند اقوام کو لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کے مقابلے میں ان لوگوں کے خیرخواہوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جنہوں نے حدبندی کا یہ معاملہ پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے اپنے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں مولانا خانزیب نے اس سلسلے میں دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنران پر بھی کھڑی تنقید کی اور کہا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے پیش نظر دفعہ 144 کے تحت پانچ سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہے لیکن یہاں ہزاروں لوگ دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہیں جن میں خدانخواستہ ایک بھی متاثرہ فرد آیا تو یہاں یہ وائرس تباہی مچا دے گا۔
متعلقہ خبریں:
‘موجودہ وقت ان باتوں کو چھیڑنے کا نہیں‘
ہزاروں لوگ دربنڑو کے مقام پر احتجاجی دھرنا دینے کیلئے موجود
ڈپٹی کمشنران کے جرگے کے علاوہ کئی پختون سیاسی و سماجی مشران بھی اس کشیدگی کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں جن میں پختونخوا اولسی تحریک کے قائدین بھی شامل ہیں۔
تحریک کے بانی ڈآکٹر سید عالم محسود نے اس سلسلے میں پختون لیڈران کا لویہ جرگہ (بڑا جرگہ) بلانے کا عندیہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہوگئی تو وہ خطے کے تمام پختون لیڈران خواہ وہ سیاسی ہوں یا سماجی ان کا جرگہ منعقد کریں گے اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔