‘بونیر کے صاحب ثروت سکھ برادری کے کمزور خاندانوں کی خود مالی مدد کریں گے”
عثمان خان
ملک میں کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد غریب کے علاوہ متوسط طبقے کو بھی معاشی بدحالی کا خوف کھائے جا رہا ہے اور اکثریت اس دوڑ میں نظر آتی ہے کہ کسی طرح حکومت یا فلاحی تنظیموں کی امداد اور راشن حاصل کیا جا سکے لیکن ایسے میں بونیر کی سکھ برادری اس دوڑ سے مکمل باہر ہے۔ سکھ کمیونٹی کے پنچائیت نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت یا دیگر فلاحی اداروں کی امداد کے پیچھے بھاگنے کی بجائے برادری کے صاحب ثروت لوگ خود اپنے کمزور بہن بھائیوں کی مالی اعانت کریں گے۔
بونیر میں سکھ برادری کے زیادہ تر خاندان پیر بابا کے پاچا کلی میں آباد ہیں جہاں پر ان کی زیادہ تر کپڑے اور کریانے کی دوکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ برادری کے سینکڑوں لوگ انتہائی غربت کی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں پیر بابا بازار میں عرصہ دراز سے کپڑے کے تاجر اور سکھ برادری کے مقامی سربراہ سنت سنگھ نے بتایا کہ یہاں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی لوگ آباد ہیں وہ بیشتر کاروبار سے وابستہ ہیں اور تقریباً پچھلے دس پندرہ دن سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے کاروبار مکمل طور پر بند پڑے ہیں۔
کاروبار کی بندش سے ان کو بے شک بہت سے مسائل کا سامنا ہے کيوں کہ ان کے پاس ان چھوٹے موٹے کاروباروں کے علاوہ زندگی بسر کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ‘لیکن جب تک ہم اپنے جمع شدہ وسائل پر گزارہ کرسکتے ہیں تو کریں گے اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے’ سنت سنگھ نے کہا۔
سنت سنگھ کے مطابق اب تک ان کے ساتھ کسی حکومتی عہدیدار نہ ہی کسی فلاحی ادارے نے امداد کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے اور اگر کریں گے بھی تو وہ لوگ انکار کر دیں گے کیونکہ ان کی پنچائیت نے فیصلہ کیا ہے اپنی برادری کے اندر کمزور خاندانوں کی خود اعانت کریں گے اور راشن وغیرہ مہیا کریں گے۔
سکھ برادری کے مقامی مشر نے کہا ‘اس کے ساتھ ہمارے مسلمان بھائی جو اس وقت اس کرونا کے امتخان سے گزر رہے ہیں سکھ برادری نے اپنی بساط کے مطابق ان کے ساتھ بھی تعاون کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے لیکن اس میں کوئی بھی نمود و نمائش نہیں ہوگی۔’
ان کے مطابق وفاقی حکومت نے دیہاڑی دار طبقے کیلئے مالی تعاون کا اعلان کیا ہے اور ہم حکومت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں اور اس پر ہماری برادری من وعن عمل بھی کرے گی کیونکہ ہم کاروباری لوگ ہیں اور اس امداد پر پر ہمارا حق نہیں بنتا اس لئے ہم اس کے لئے درخواستیں جمع نہیں کرائیں گے۔
یاد رہے کے گزشتہ روز وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے مستحق خاندانوں کی مالی معاونت سے متعلق صوبائی حکومت کو خط لکھا گیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت صوبے کے 5 لاکھ 83 ہزار مستحق خاندانوں کو مالی امداد دے گی، 4 ماہ تک مستحق خاندانوں کو فی ماہ 3 ہزار روپے دیئے جائیں گے، اضلاع کی سطح پر مستحق خاندانوں کا فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی۔
خط کے مطابق نادرا ویب سائٹ پر درخواست مرتب کرے گی اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے تصدیق کے بعد مستحق خاندانوں کا ڈیٹا درخواستوں پر اپ لوڈ کردیا جائے گا، ضلعی انتظامیہ مستحق خاندان کے صرف ایک فرد سے رابطے میں رہے گی، مستحق خاندانوں سے متعلق ڈیٹا متعلقہ بینکوں کو فراہم کیا جائے گا اور سکولز، کالجز، ٹاون ہالز اور دیگر مقامات پر کیش وصولی کے لیے مراکز قائم کئے جائیں گے۔
بونیر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کم و بیش پانچ ہزار خاندان آباد ہیں جن کی اکثریت اپنا کاروبار چلاتی ہے۔
سارے بونیر میں ان کے 5 گوردوارے اور اتنے ہی شمشان گھاٹ ہیں جہاں پر وہ بلا خوف و خطر اپنی عبادات اور رسومات ادا کرتے ہیں۔
سکھ برادری کی پچاس فیصد آبادی بونیر کے اولین اور روحانی گاؤں پیر بابا میں رہائش پذیر ہے جبکہ باقی دیوانہ بابا، غورغوشتو، جنگئی اور چنگلئی میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔
پیر بابا کے رہائشی سنت سنگھ کہتے ہیں کہ ہماری تعداد پیر بابا میں اس لیے زیادہ ہے کہ 70 سال قبل ہمارے آباواجداد یہاں کاروبار کی غرض سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ تب پیربابا بازار کاروبار کے لحاظ سے سوات کے مینگورہ کے مقابلے کا بازار تھا اور تب سے لے کر آج تک سکھ برادری اور مسلمان بھائی آپس میں بہتر تعلقات اور آپس میں رفت آمد رکھتے ہیں۔
دوسری جانب ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں الخدمت فاونڈیشن بونیر کے ضلعی رہنما عبداللہ نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ضلع بونیر میں بھی کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں امدادی کارروائیاں شروع کی ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے پلان ترتیب دیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری کے بھائیوں کا بھی اس طرح سے تعاون کریں گے جس طرح مسلمانوں سے کرتے ہیں۔
ان نے بتایا کہ وہ اقلیتی برادری سے لسٹیں طلب کریں گے اور جو بھی مستحق خاندان ہیں ان کی ہر طرح کی مدد کی جائے گی۔
عبداللہ کے مطابق الخدمت فاونڈیشن نے علاقے میں مساجد کی صفائی اور جراثیم کش سپرے کا آغاز کر دیا ہے اور پیربابا میں موجود گوردوارے کی صفائی بھی کی ہے اور ان کو صفائی کیلئے ضرورت کی اشیاء بھی دی ہیں اور یہ کہ ان کے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کی جانب سے انہیں تاکید کی گئی ہے کہ اقلیتی برادری کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔