‘آن لائن کلاسز بہت ہی اچھے مگر تھری جی، فور جی کی سہولت کہاں؟’
خالدہ نیاز
پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد جہاں تمام کاروباری مراکز اور دفاتر بند کردیئے گئے وہیں پر تعلیمی ادارے بھی بند پڑے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء کا کہنا ہے کہ ان کے علاقوں میں تھری جی اور فور جی کام نہیں کرتے اور انٹرنیٹ کا نظام بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی میں زیرتعلیم جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلم زکریا نے بتایا کہ آن لائن کلاسز یکم اپریل سے شروع ہیں تاہم ابھی تک انہوں نے ایک بھی کلاس اٹینڈ نہیں کی کیونکہ یہاں تھری جی اور فور جی کام نہیں کرتے۔
‘دوسری طرف یونیورسٹی کی جانب سے ہم پر دباؤ ہے کہ آن لائن کلاسز لیں کہ اس سے ہماری جی پی اے پر اثر پڑ سکتا ہے اور حاضری پر بھی لیکن ہم نہ تو کلاسز لے سکتے ہیں اور نہ ہی حاضری کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں ہے۔’ زکریا نے مزید کہا۔
زکریا نے کہا کہ لاک ڈاؤں کی وجہ سے وہ ایسا بھی نہیں کر سکتے کہ کسی رشتہ دار یا دوست کے گھر جا کر آن لائن کلاسز لے سکیں جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، ‘اگر ایک طرف کورونا کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف کلاسز کے ضائع ہونے اور غیرحاضریاں بڑھنے کا غم بھی کھائے جا رہا ہے۔’
نہ صرف زکریا پریشانی سے دوچار ہیں بلکہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر طلباء پریشانی کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک عارف محسود بھی ہیں جن کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں ایم اے کے طالبعلم ہیں۔
قبائلی طلباء کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک
ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے عارف محسود نے کہا کہ ایچ ای سی نے ہمیشہ قبائلی طلباء کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ ‘قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد یونیورسٹیوں اور کالجز میں قبائلی طلباء کا کوٹہ ڈبل کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا تھا اور طلباء کے احتجاج کے بعد ہی اس پر عمل درآمد ہوا، اب ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز کا ڈرامہ شروع کیا ہے تو قبائلی طلباء کے پاس انٹرنیٹ تھری جی فور جی کی سہولت ہی نہیں ہے تو وہ کیسے یہ کلاسز لیں، اس کے علاوہ باقی طلباء بھی 30 فیصد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں نیٹ کام نہیں کرتا تو ایسے میں آن لائن کلاسز کا کیا فائدہ جب زیادہ طلباء کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں ہے۔’ انہوں نے کہا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی گومل یونیورسٹی کی طالبہ ماریہ نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ ان کو آن لائن کلاسز لینے میں شدید دشواری ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی کو فوری بحال کرے تاکہ ملک کے باقی طلباء کی طرح وہ بھی آن لائن کلاسز لے سکیں اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔
اس سلسلے میں جنوبی وزیرستان وانا میں ملک بھر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء نے احتجاج بھی کیا اور علاقے میں تھری جی اور فورجی کی سہولت دینے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین کی قیادت کرنے والے طلبہ میں حذیف وزیر، عامر وزیر، گل زمان وزیر اور ضیاء الرحمان وزیر شامل تھے۔ طلبہ سے سیاسی قائدین اے این پی کے رہنماء تاج وزیر اور پی پی پی ضلعی صدر آمان اللہ وزیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں طلباء کالجز و یونیورسٹیوں کی بندش کے بعد آن لائن لیکچر حاصل کرنے کے سلسلے میں گھروں پر مستفید ہو رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے جنگ زدہ قبائلی اضلاع کے طلباء اس دور میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں جس سے طلباء کا وقت اور وسائل ضائع ہو رہے ہیں لہذا حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت وانا میں طلباء کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کیلئے اقدام اٹھائے۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی بحال کرنے کیلئے احتجاجی مظاہرے پچھلے ایک ہفتے سے جاری ہیں۔
شمالی وزیرستان میں آن لائن کلاسز کا بائیکاٹ
چند روز قبل شمالی وزیرستان میں یوتھ آف وزیرستان تنظیم نے بھی آن لائن کلاسزکے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ طلباء کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کی طرف سے آن لائن کلاسز کا اقدام اچھا ہے لیکن پہلے قبائلی اضلاع میں تھری جی اور فور جی کو بحال کیا جائے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث پورے ملک میں تعلیمی ادارے بند ہیں جس کے بعد ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز لینے کا کہا ہے تاہم شمالی وزیرستان میں انٹرنیٹ اور تھری جی اور فور جی نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی طالبعلم کے پاس نیٹ کی سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز نہیں لے سکتے۔
انٹرنیٹ کی بحالی کے لیے ایم پی اے کا خط
2 اپریل کو شمالی وزیرستان کے ایم پی اے میر کلام وزیر نے ایچ ای سی کے چیئرمین کو وزیرستان میں انٹرنیٹ سروس بحالی کے لیے خط بھی لکھا۔ خط میں ایم پی اے کا کہنا تھا کہ آن لائن کلاسز کا اجراء خوش ائند ہے مگر ہمارے علاقے میں انٹرنیٹ سروس نہیں جس کی وجہ سے طلبہ آن لائن کلاسز نہیں لے سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
ضم اضلاع میں تھری جی، فور جی بحالی کا ایک اور وعدہ
قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بحالی تاحال اعلانات تک محدود
‘قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی بحالی ضروری ہے’
انہوں نے مزید کہا کہ علاقے میں انٹرنیٹ سہولت کے لئے اقدامات کئے جائیں کیونکہ بہت سے طلبہ کے آن لائن کلاسز سے محروم رہنے کا خدشہ ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ملنے سے طلبہ کو بنیادی حقوق ملیں گے۔
میر کلام وزیر کے مطابق وزیرستان کےطلبہ دو دہائیوں سے تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں لہذا اب شمالی وزیرستان میں جلد از جلد تھری جی اور فور جی کو بحال کیا جائے کہ اس طرح طلباء کو آن لائن کلاسز لینے میں دشواری پیش نہ آئے۔
تھری جی فور جی، موجودہ حالات میں اہم ضرورت
21 مارچ کو قبائلی ضلع خیبر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریاض خان نے بھی تسلیم کیا تھا کہ موجودہ حالات میں بڑے پیمانے پر قبائلی عوام کو کورونا وائرس سے متعلق معلومات اور حفاظتی اقدامات سے آگاہ کرنے کے لئے تھری جی اور فور جی نیٹ سروس بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ نیٹ سروس کی بحالی کے لئے متعلقہ حکام کو سفارش کریں گے تاکہ قبائلی عوام تیزی سے سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی اقدامات سے باخبر رہیں۔
خیال رہے کہ آن لائن کلاسز کیلئے ایچ ای سی کی جانب سے جامعات کیلئے ‘زوم’ نامی ایپ کی منظوری دی گئی ہے جس میں سائن اَپ ہونے کے بعد کوئی طالبعلم آن لائن کلاس کے کوڈ پر کلک کر کے کلاس تک رسائی حاصل کر سکے گا جس کے بعد حاضری بھی دی جا سکتی ہے، بحث مباحثہ میں حصہ بھی لیا جا سکتا ہے اور سوال بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔