برطانیہ، پاکستانی نژاد اریمہ نسرین کورونا سے جاں بحق ہونے والی پہلی نرس
پاکستانی نژاد برطانوی نرس برطانیہ میں نوول کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والی پہلی نرس بن گئیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اریمہ نسرین کسی اور بیماری کا شکار نہیں تھیں اور جمعے کی صبح والسل مینور ہسپتال کے آئی سی یو میں وہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ ہار گئیں۔
شبینہ کوثر اور نادیہ شبیر نامی ان کی سہیلیاں کے مطاق اریمہ ہر ایک کا استقبال مسکراہٹ کے ساتھ کرتی تھی، وہ ایسی شخصیت تھی جو کسی کے لیے کچھ بھی کرسکتی تھی، جب آپ اپ سیٹ ہوتے تھے تو اسے فون کرتے تھے اور وہ آپ کو حوصلہ دیتی تھھی، وہ ہمیشہ کہتی تھی، نماز پڑھو اور اللہ کی جانب رجوع کرو، وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر اللہ نے اسے اپنے پاس بلالیا، ہمارے دعائیں اس کے خاندان، شوہر، بچوں اور والدین کے ساتھ ہیں، مجھے لگتا ہے کہ میرا سب کچھ کھو گیا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسی شخصیت تھی، جو آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی تو چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی، اس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا وہ آپ کو دے دیتی، وہ فراخ دل تھی اور یقینا ایک فرشتہ تھی۔
36 سالہ اریمہ نسرین 15 سال تک ایک ہسپتال میں کلینر کے طور پر کام کرتی رہیں، مگر پھر انہوں نے نرس بننے کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کا خواب 2019 میں اس وقت پورا کیا جب انہوں نے نرسنگ میں گریجویٹ کیا۔
اس ہسپتال میں وہ برسوں سے کام کررہی تھیں اور 2 ہفتے قبل مریضوں کی نگہداشت کے دوران وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوئی تھیں۔
Never thought I could see this amazing day. Thank u to Walsall Manor Hospital for believing in me. Countles's people one who was me struggle to believe that they have the right to dream. But please follow through, and yes with commitment compassion support dreams do come true. pic.twitter.com/gR2P101B5P
— Areema Nasreen (@AreemaNasreen) April 24, 2019
اریمہ نسرین اپنی زندگی کی کہانی دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی بیان کرتی تھیں تاکہ وہ اپنے خوابوں کو تعیبر دے سکیں۔
گزشتہ سال اپریل میں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے گریجویشن کی خوشی بیان کرتے ہوئے لکھا ‘میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسا حیرت انگیز دن دیکھ سکوں گی، والسل مینور ہسپتال کا مجھ پر یقین کرنے پر شکریہ، خواب سچے ہوسکتے ہیں’۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں اب تک 36 سو سے زائد افراد کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں متعدد افراد ایسے ہیں جن کو کسی قسم کی بیماری کا سامنا نہیں تھا، جیسے ایک 13 سالہ بچہ اسمعیل محمد عبدالوہاب، جو برطانیہ میں اس مرض سے ہلاک ہونے والا کم عمر ترین مریض ہے۔
برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان وقار کے مطابق اریمہ نسرین کی ہلاکت کا واقعہ بتاتا ہے کہ کووڈ 19 کسی کو بھی متاثر کرسکتا ہے، اور ہمیں اس وباء کو سنجیدگی سے لے کر اپنی جانب سے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے، سماجی دوری وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، انفرادی سطح پر خاندانوں کو علامات نظر آنے پر خود کو آئسولیٹ کرکے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، گھر پر رہ کر زندگیاں بچائیں اور این ایچ ایس کو محفوظ رکھیں’۔
اریمہ نسرین کی وفات سے چند گھنٹے پہلے 79 سالہ معروف مصری نژاد برطانوی ڈاکٹر محمد سمیع اس وائرس کے نتیجے میں چل بسے تھے، جس کے بعد برطانیہ میں اس بیماری ہلاک ڈاکٹرون کی تعداد 5 ہوگئی۔
اگرچہ انہوں نے کسی مریض کا علاج تو نہیں کیا مگر انہیں وائرس کا شکار ہونے کے بعد 23 مارچ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور جمعرات کو وہ لندن میں چل بسے، ڈاکٹر محمد سمیع 1978 سے مغربی لندن میں واقع ہسپتال کیئرنگ کراس میں کام کررہے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی جان بچاتے بچاتے پاکستانی ڈاکٹر حبیب زیدی سمیت 4 مسلمان ڈاکٹرز بھی اس مہلک وائرس کا شکار ہو کر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والوں میں مسلمان ڈاکٹرز نے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں رات دن ایک کر دیئے تاہم اس دوران 4 مسلمان ڈاکٹرز اس مہلک وائرس کا شکار ہوگئے۔
اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران موت کو گلے لگانے والوں میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر حبیب زیدی بھی شامل ہیں۔ 76 سالہ ڈاکٹر حبیب زیدی 50 سال قبل برطانیہ آئے تھے اور ایسکس میں رہائش پذیر تھے جہاں وہ ایک معتبر اور انسان دوست معالج جانے جاتے تھے۔
کورونا وائرس کے باعث وہ ایک ہفتے سے قرنطینہ میں تھے تاہم طبیعت بگڑنے پر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیے گئے جہاں ایک دن بعد ہی وہ خالق حقیقی سے جاملے۔
کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کے دوران موت کو گلے لگانے والے دیگر مسلمان ڈاکٹرز میں افریقی نژاد 68 سالہ ایلفا سادو جب کہ سوڈانی نژاد 55 سالہ ڈاکٹر امجد الحورائی اور 64 سالہ عدیل الطیر شامل ہیں۔
ڈاکٹر ایلفا سادو برطانوی محکمہ صحت میں 40 سال تک خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوگئے تھے تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث دوبارہ اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی تھیں۔
برطانیہ میں مقامی پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز نے بھی کورونا وائرس کو شکست دینے کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے لیکن غیر ملکی اور پناہ گزین ہونے کی وجہ سے مسلمان ڈاکٹرز کو سرکاری سطح پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔