چترال سے کرونا کے مشتبہ مریض آخر کب تک پشاور منتقل کئے جائیں گے؟
چترال میں کرونا وائرس کی سکریننگ اور ٹیسٹس کے سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک اور مشتبہ مریض کو معائنہ کیلئے پشاو ر منتقل کیا گیا۔
حنیف اللہ نامی طالب علم جو گورنمنٹ ڈگری کالج میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم ہے اور وہ ایک ہفتہ قبل کراچی سے آیا تھا۔ انہیں آج اپنے عزیز و اقارب طبیعت خراب ہونے پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے کر گئے جہاں کورونا وائریس کی تشحیص کی سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے پشاور ریفر کیا گیا۔
ڈاکٹروں کی جانب سے مشتبہ قرار دئے جانے کے بعد مریض کے گھر اور رشتہ داروں کے دو گھرانوں میں بھی پولیس اور چترال لیوی پہرہ دے رہے ہیں اور متاثرہ گھروں میں لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی چترال سے دو مشتبہ مریض پشاور منتقل کردئے گئے تھے۔
حنیف اللہ کے چچا اور سماجی کارکن اقبال مراد کے مطابق وہ 19 مارچ کو کراچی گیاتھا وہاں سے واپسی پر زکام، بخار اور درد کا تکلیف ہونے لگا تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔
ہسپتال میں چونکہ کورونا وائریس کی تشحیص کیلئے نہ تو کوئی سکینر مشین موجود ہے نہ لیبارٹری اسلئے مریض کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور ریفر کیا گیا۔ اقبال مراد نے یہ بھی شکایت کی کہ ان کے بھائی کو مریض کے پاس ایمبولنس کے اندر ہی بٹھایا گیا جنہیں نہ ماسک دیا گیا نہ حفاظتی لباس۔
ان کے مطابق مریض کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے پولیس ہسپتال لے گئے ہیں تاہم ابھی تک ٹسٹ کا رزلٹ نہیں آیا۔
انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایک طرف ملک بھر میں حالات اتنے سنگین ہیں اور حکومت دعوے کررہے ہیں کہ ہم اس وبا کے ساتھ جنگی بنیادوں پر نبرد آزما ہوں گے مگر لوئر اور اپر چترال کے دونوں اضلاع میں کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے کوئی سکینر، لیبارٹری یا کوئی مشنری تک موجود نہیں ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ مریض میں کورونا وائریس موجود ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ چترال سے پشاور جانے میں پندرہ گھنٹے لگتے ہیں اگر کسی مشتبہ مریض میں خدا نخواستہ کورونا کا وائرس موجود ہو تو وہ چترال سے پشاور تک پورا علاقہ متاثر کرسکتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ سے اپیل کی ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع میں کم از کم ایک ایک ایسا مرکز صحت ہنگامی بنیادوں پر قائم کیا جائے جہاں کورونا وائرس کی تشخیص سے لیکر علاج معالجے تک تمام سہولیات میسر ہو۔