فرزانہ کے خاندان کو جب ان کی بینک ملازمت ایک آنکھ نہ بھائی
سلمہ جہانگیر
‘میں خاندان میں پہلی لڑکی تھی جس نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور وہ بھی بینک کی تو سب کو یہ بات بہت عجیب لگی تھی اور معیوب بھی’۔
فرزانہ یاسمین کہتی ہیں کہ نوکری سے پہلے اور بعد میں انہیں اکثر یہی سننے کو ملتا تھا کہ جو لڑکی نوکری کرتی ہیں وہ گھر کو اچھے طریقے سے سنبھال نہیں سکتی اور جب نوکری ایسی ہو جس میں سارا دن مرد سے واسطہ پڑے تو وہ لڑکی کافی آزاد خیال ہوتی ہیں یا ہوجاتی ہیں۔
‘میں نے ان باتوں پر کان نہیں دھرے کیونکہ مجھے اپنے والدین کی سپورٹ حاصل تھی۔ میرے والد خود بھی بنک میں ملازم تھے اس سے متاثر ہوکر ہی مجھے بنک میں ملازمت کرنے کی خواہش تھی’ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے فرزانہ یاسمین نے کہا۔
پشاور کی فرزانہ یاسمین جس نے ایم بی اے اورپھر ایم اے اسلامیات میں ماسٹر کیا، والد بنک میں تھے لیکن پشاور میں جب فرسٹ وویمن بنک میں اسامیاں آئی تو فون پر ایک سہیلی کے زریعے انکو پتہ چلا اور اپلائی کے بعد ٹسٹ اور انٹرویوں میں بہترین کارکردگی پر ملازمت کے لئے منتخب ہوگئیں۔
فرزانہ نے بنک ملازمت مئ 1996 میں بطور کیشئر شروع کیا اور آج کل آپریشن مینجر کے عہدے پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
فرزانہ یاسمین کہتی ہیں کہ ان کو شروع سے ہی والد اور والدہ کا سپورٹ حاصل رہا اور بعد میں انکی اہلیت اور کام سے تنقید کرنے والے خود بخود قائل ہوئے کہ لڑکی بھی بنک میں ملازمت کرسکتی ہیں اور واقعی بیٹی بھی اپنے ماں پاب کا سہارا بن سکتی ہیں۔
فرزانہ کے مطابق بنک میں نوکری کرنے کا تجربہ اچھا رہا لیکن بینک ملازمت عملی طور پر ان چیزوں سے بہت مختلف ہے جو کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
‘یہ بات بالکل درست ہے کہ ایک خاتون کے بنک میں جاب کرنا اور دیگر اداروں کی نسبت تھوڑا سا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں’ انہوں نے کہا اور مزید بتایا کہ بنک میں ڈیوٹی دورانیہ زیادہ ہے۔
صبح 9 سے لیکر شام 5 بجے تک تو صرف پبلک ڈیلنگ کے لئے اوقات کار ہیں لیکن جب دن بھر کا حساب کتاب کلیئر کرکے ہیڈ آفس بھیجا جاتا ہے تو وہ اضافی ڈیوٹی ہوتی ہیں لیکن جہاں اپنے کام سے شوق و لگن ہوتو وقت کے ساتھ ساتھ مینج ہوجاتا ہے۔
فرزانہ نے کہا کہ یہاں زیادہ تر لڑکیاں حساب کتاب اور زیادہ دورانیہ کے ملازمت سے ڈرتی ہیں حالانکہ پشاور میں قابل اور اہل لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں ہیں۔
بنک مینجر آپرشن فرزانہ یاسمین کہتی ہیں کہ جب ایک لڑکی تعلیم حاصل کرلیتی ہے تو انکو مشورہ دونگی کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی ملازمت کریں چاہئے بینک کی ہو یا کوئی اور۔
ہر تعلیم یافتہ لڑکی پر ان پر نہ صرف والدین اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی کوشش، اور اساتذہ کی محنت بھی شامل ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی لڑکی پھر بھی ملازمت نہ کریں تو اس کا مطلب ہے اس نے نہ صرف والدین کا سرمایہ اور اپنی اور اساتذہ کی محنت ضائع کردی بلکہ وہ معاشرے کے بھی مجرم بن جاتی ہیں کیونکہ اس نے معاشرے کے لئے وہ کردار ادا نہیں کیا جو وہ کرسکتی تھی۔
انہوں نے کہا بعض لوگ خواتین کی ملازمت یا کاروبار کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں لیکن اسلامی تاریخ میں ہمارے سامنے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کی مثال موجود ہے جو اپنا کاروبار کرتی تھی۔