‘شوہرنے خود شوبز انڈسٹری میں متعارف کروایا اور پھرشک بھی کرتا رہا’
ناہید جہانگیر
‘ انہوں نے مجھے خود شوبز کی دنیا میں متعارف کروایا لیکن بعد میں میری ہر بات، ہر عمل پر شک کرنا اور مجھے حبس بے جا میں رکھنا ان کی عادت بن گئی’
پشاور کی رہنے والی اداکارہ اور میک اپ ارٹسٹ کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر شوبز سے حاصل کی جانے والی آمدنی اپنی ملکیت سمجھتا تھا لیکن جب کئی سال گزرنے کے بعد انہوں نے شوہر سے سوال و جواب شروع کردیا تو ان کو یہ انا کا مسئلہ لگا اور اسی دن سے ان کی طرف سے ذہنی تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ کہانی ہے فوزیہ کی جو خاوند سے خلع لینے کے بعد اپنے دونوں بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے 2002 میں بطور ڈرامہ آرٹسٹ اپنے فن کی شروعات کیں اور آج کل پی ٹی وی میں میک اپ آرٹسٹ کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
فوزیہ نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب 2012 میں پی ٹی وی میں انکو سرکاری نوکری ملی تو خوشی کی انتہا نہیں تھی لیکن یہ خوشی میری ذاتی زندگی کو شاید راس نہیں آئی، شوہر کے روئے میں کافی حد تک منفی تبدیلی آئی، بے جا پابندیاں ڈالنے لگا، جس کی وجہ سے وہ بھی آہستہ آہستہ ذہنی دباو میں آگئی جسکا اثر انکے دونوں بچوں کی تربیت پر بھی پڑ رہا تھا۔
فوزیہ نے بتایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ شوہر سے الگ ہوجانا ہی ان کے اور بچوں کے حق میں بہتر ہے۔
فوزیہ کا کہنا تھا کہ اداکاری ان کا بچپن سے شوق تھا لیکن والدین کی طرف سے اجازت نہیں تھی، شادی کے بعد جب شوہر نے مجبور کیا کہ آمدنی میں ان کا ہاتھ بٹھاوں تو اس وقت شوبز انڈسٹری جوائن کرکے نہ صرف اپنی خواہش پوری کردی بلکہ گھر کا چھولہا بھی ٹھنڈا نہ ہونے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے بعد میں میری مخالفت کے باوجود مجھ سے اداکاری جاری رکھوائی اور میرے شوق کو اپنے فائدے کے لئے استمال کرنا شروع کر دیا۔
اپنی شوق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہر انسان کو عزت، دولت اور شہرت کی خواہش ہوتی ہے اور یہ تینوں چیزیں آپ کو سکرین سے ملتی ہیں۔ ‘مجھے بھی یہی خواہشات میڈیا میں لے آئیں لیکن بعد میں آہستہ آہستہ دل اکتا گیا لیکن شوہر پھر بھی مجبور کرتے رہے۔’
اپنے شوق کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بچپن میں پی ٹی وی کے ڈرامہ پس آئینہ میں جب روبینہ اشرف پولیس کے کردار میں دیکھتی تو انکی بھی پولیس بننے کی خواہش جاگ اٹھتی اور ایسے ہر ڈرامے کے مین کریکٹرز جیسے ان کی زندگی کا حصہ بن گئے ہوں۔ ‘ظاہر سی بات ہے حقیقی زندگی میں آپ ہر کردار تو ادا نہیں کرسکتے لیکن ڈرامہ ایسا زریعہ ہے جہاں آپ ہر کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ تھی میرے شوبز میں آنے کی’ فوزیہ نے بتایا۔
فوزیہ کا تعلق نوشہرہ سے ہیں انکو شروع ہی سے ڈرامے دیکھ دیکھ کر خو بھی ڈراموں میں کام کرنا کا شوق پیدا ہوا، اپنے کرئیر کا آغاز انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے پشتو ڈراموں سے ہی کیا اور انکے مشہور ڈراموں میں ،یو جہان، پرہر،خاندان، د ہر چا خپلہ دنیا،مونږ د چا نہ کم یو څه،
فوزیہ نے بعد میں پرائیویٹ چینل میں بھی بطور آرٹسٹ کام کیا جس میں شور، پڑاو قابل ذکر ہیں، پڑاو اور یو جہان ڈرامہ پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔
فوزیہ کے مطابق انہیں حکومت اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اداروں سے کئی ایوارڈ دئے جا چکے ہیں جن میں ثقافت کے زندہ امین ایوارڈ کو وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں وصول کرکے انہیں بے انتہا خوشی ہوئی۔
فوزیہ کے کہنا ہے کہ وہ بھی کیرئیر کے آغاز میں خاندان کے دباو میں رہی کیونکہ وہ بھی ایک پشتون خاندان اور کلچر سے تعلق رکھتی ہیں شروع میں انکو بھی کافی تنقید کانشانہ بنایا گیا لیکن جب ارادے پختہ اور کام سے لگن ہوں تو شروعات میں کسی بھی چیلنج سے نہیں گھبرانا چاہئے۔وہی لوگ جو شروع میں تنقید کا نشانہ بناتے تھے اب جب جہاں بھی لوگ ملتے ہیں اورتعریف کرتے ہیں تو میرے ساتھ وہ بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔
فوزیہ کا یہ سفر 7 یا 8 سال تک رہا جب وہ ڈرامہ آرٹسٹ تھی تو میک اپ کی طرف بھی رحجان رہا خود کو سنورنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا میک اپ کرنا بھی انکو اچھا لگتا تھا۔ فیملی تقریبات یا فیملی میں کسی کی شادی ہوتی تو فوزیہ اسکا میک اپ کرتی اور سب بہت تعریف بھی کرتے تھے تو آہستہ آہستہ میک اپ آرٹسٹ بننے کی طرف رحجان ہوگیا۔
فوزیہ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی خواہش کی اللہ نے پوری کی اور اسی طرح 2012 میں انکو پی ٹی وی میں بطور میک اپ آرٹسٹ نوکری ملی اب ٹی وی ڈراموں میں کام کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن کبھی کبھار اگر ریڈیو پروگرام یا ڈرامہ ہوتو کر لیتی ہیں ورنہ اب انکی ترجیح میک اپ ہی ہے۔
فوزیہ نے پارلر اور ٹی وی میک اپ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلر میں صرف بناو سنگھار کا میک اپ کیا جاتا ہے جبکہ ٹی وی کا اسکے برعکس ہے یہاں آپ کردار کے حوالے سے میک اپ کرتے ہیں، مطلب جوان سے بوڑھا یا بوڑھے سے جوان بنانا، جن، بھوت یا پری بنانا آرٹ آنا چاہئے، اسکے علاوہ ، چہرے، آنکھ، ہاتھ پر زخم یا جلنے کا نشان میک اپ کے زریعے نہ صرف کرناہوتا ہے بلکہ وہ سکرین پر حقیقی نظر آئے وہ بھی ضروری ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہے کہ پے در پے کامیابیوں، ان پڑھ شوہر کے مقابلے میں تعلیم یافتہ ہونا اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا یہ تین وجوہات تھیں جو ان کے شوہر کو قبول نہیں تھیں۔
‘وہ مجھے نہ صرف گھر میں حبس بے جا میں رکھتا بلکہ میرے دفتر آکر بھی میری جاسوسی کرتا جس کی وجہ سے مجھے کافی دقت ہوتی تھی، وہ چاہتا تھا کہ میں نفسیاتی مریض بن کر ان کی غلام بنی رہوں اور ان کی ہر غلط بات اور اعمال پر چپ سادھ لوں لیکن میرے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا اور ان سے خلع لے لی’
فوزیہ نے بتایا کہ ایسے شوہر سے اکیلے زندگی گزارنا وہ بہتر سمجھتی ہے اور یہ کہ اب وہ خود مختار اور اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔