خیبر پختونخوا

زون 3 میں مسئلہ کیا ہے، پسماندہ اضلاع کے لوگوں کا زون 6 کا مطالبہ کیوں؟

سی جے طارق عزیز

پراوشل منیجمنٹ سروس (پی ایم ایس) امتحان کے جاری کردہ نتائج کے مطابق زون 3 میں سے سوات کے 8، ملاکنڈ کے 6، چترال کے 5 دیر لوئر کے 2 اور بونیر سے ایک امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں جبکہ کوھستان کے تین اضلاع اپر کوھستان، لوئر کوھستان، کولئی پالس کوھستان کے علاوہ شانگلہ، دیر اپر، بٹگرام اور تورغر کا کوئی بھی امیدوار جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ نتائج سامنے آنے کے بعد زون 6 کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے جس میں شانگلہ، تین اضلاع کوھستان کے،تورغر اور بٹگرام شامل ہیں۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ محولہ بالا اقدام کی کابینہ نے باقاعدہ منظوری بھی دی ہے اور اس کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کے بعد پبلک سروس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں وزیراعلی نے نوٹیفیکشن جاری کیا تھا جو فنانس ڈپارٹمنٹ بھی بھیجا گیا لیکن اس کے بعد کسی قسم کی خبر نہیں ملی اور معاملہ فائلوں میں کہیں دھب کر رہ گیا۔

درجہ بالا پسماندہ اضلاع کے لوگ زون 6 کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں اور موجودہ زون 3 میں ان کو مسئلہ کیا ہے اس بارے میں شانگلہ کے ایک ماہر تعلیم اور گورنمنٹ ہائی سکول کروڑہ کے پرنسپل شاہد آحمد سے جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ "پی ایم ایس کے امتحان میں ناکام ہونے والے درجہ بالا اضلاع ایک ایسے زون میں شامل ہیں جس میں ان پسماندہ اضلاع کے امیدواروں کا پاس ہونا بہت مشکل ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ زون کی تقسیم غیرمنصفانہ ہے جس میں ایک طرف آبادی کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، زون 5 کی آبادی تقریبا 93 لاکھ ہے جبکہ دوسری طرف زون 5 تقریباً 30 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے جو ہمارے زون سے 3 گنا کم ہے۔

شاہد احمد نے مزید کہا کہ زون 3 میں اگر ایک طرف کوھستان، شانگلہ اور تورغر جیسے پسماندہ اضلاع شامل ہیں تو دوسری طرف ان میں سوات، ملاکنڈ اور دیر لوئر جیسے تعلیمی لحاظ سے بہت اچھے علاقے بھی شامل ہیں اور یوں مقابلے میں وہ ترقی یافتہ اضلاع کے امیدوار کامیاب ہو کر پسماندہ علاقوں کے امیدوار محروم رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں طلبہ اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مشران پر زور دیا کہ ان اضلاع کے مستقبل کا سوال ہے اور سب لوگ اس میں اپنا کردار ادا کرکے زون 6 کیلئے سنجیدگی سے آواز اٹھائیں۔

ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے زون 6 کے قیام کیلئے سرگرم سماجی کارکن طارق روف نے کہا کہ "زون 6 کے حوالے سے ہم نے کافی کام کیا اور اس سلسلے میں ہم نے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے ملاقاتیں بھی کیں، اس پر زیادہ کام ہو چکا ہے لیکن ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ انجام کو نہیں پہنچ سکا، اس سلسلے میں منتخب ارکان اسمبلی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ 6 اصلاع کو ان کا حق مل سکے۔”

ایف بی آر میں ملازم شانگلہ سے تعلق رکھنے والے صبور شاہ سے جب پی ایم ایس میں ان پسماندہ اضلاع کے طلبہ کی ناکامی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے تعلیم کے ناکافی وسائل کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں تعلیم اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے دوسرے علاقوں سے مقابلے میں ہمارے طلبہ پیچھے رہ جاتے ہیں، "بہتر ہوگا کہ شانگلہ، کوھستان، بٹگرام، تورغر پر مشتمل الگ زون بنایا جائے تاکہ ان اضلاع کو بھی ان کا حق مل سکے۔”

سماجی کارکن جمشید علی شاہ کہتے ہیں کہ زون کے نام پر ہمارے ساتھ آدھا صوبہ سامل ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے، متعدد بار قراردادیں منظور ہوچکی ہیں، 2019 میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان نے دورہ شانگلہ کے موقع پر زون 6 بنانے کا اعلان بھی کیا لیکن اتنی طویل تاخیر کے باوجود نہایت اہمیت کی حامل اس ایشو پر منتخب ارکان اسمبلی کی خاموشی معنی خیز ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button