معذوری عطاالله کے کرکٹ اور مچھلیوں کے شکار کے شوق میں کوئی رکاوٹ نہیں
[نصیب یار چغرزئی]
بونیر کے علاقے چغرزئی سے تعلق رکھنے والا 25 سالہ عطااللہ جب کرکٹ کھیلتا ہے تو کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ایک ہاتھ سے محروم ہے۔ اسی طرح پورے علاقے میں ان جیسا کوئی مچھلی کا شکاری بھی نہیں ہے۔
عطااللہ اٹھارہ سال پہلے ایک حادثے میں ایک ہاتھ سے محروم ہوا تھا مگر آج تک کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
وہ سات سال کا تھا کہ کھیلتے کودتے گھر کے قریب آرا مشین پہنچ گیا اور آرا کے نیچے آگیا۔ حادثے میں ان کی زندگی تو بچ گئی لیکن بائیں ہاتھ سے عمر بھر کے لئے محروم ہوگیا۔
عطااللہ کہتا ہے کہ پہلے تو زندگی بہت مشکل تھی لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی سوچ میں بھی پختگی آنے لگی اور انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑا کہ باقی ماندہ زندگی ایسے ہی گزارنی پڑے گی اور دوسروں پر بوجھ بننے سے بہتر ہے کہ اپنے معذوری کو کمزوری نہ بننے دوں۔
وہ کہتے ہیں کہ حادثے کے بعد سے وہ کبھی سکول نہیں گئے لیکن بعد میں زندگی میں آسانی کے لئے انہوں نے مختلف ہنر سیکھ لئیں۔
عطااللہ نے کبھی خود کو دوسرے بچوں اور نوجوانوں سے کمتر نہیں سمجھا اور انہیں کی ساتھ انہیں کی طرح مختلف کھیل کھیلتا ہے جن میں کرکٹ ان کا پسندیدہ ہے۔
‘بچپن سے کرکٹ کھیلتا ہوں اچھی باولنگ کے ساتھ فیلنڈنگ اور بیٹنگ بھی کرسکتا ہوں’
کرکٹ کے علاوہ عطااللہ مچھلیوں کا شکار بھی بڑے ہنر سے کرتا ہے جبکہ اس کے علاوہ اس نے پرندوں کے شکار کا اپنے بچپن کا شوق ابھی بھی پال رکھا ہے۔
گاؤں کے لوگوں اور دوستوں کے تاثرات
عطااللہ کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت ہی محنت کرتا ہے پنجاب کے شہر لاھور میں چائے کے ہوٹل میں کام کرتے ہے جب گاؤں آتا ہے تو یہاں بھی سارے کام خود کرتے ہے۔
عطااللہ کے چچا ذاد بھائی کہتے ہے کہ یہ غلیل سے شکار کرنے میں پورے گاؤں کے لڑکوں میں مشہور ہے اور مچھلییوں کی شکار بھی بہت اچھا کرتا ہے۔
عطااللہ مچھلیوں کی شکار کے بارے کہتے ہے کہ وہ پوری پوری رات بھی مچھلیوں کے شکار کےلیے دریا کے کنارے گزارتا ہے، ایک ہاتھ سے مچھلیوں کی شکار بھی اس طرح کرتا ہے کہ پورے علاقے میں مشہور ہے اور لوگ دور دور سے مچھلیوں کی شکار کےلیے عطااللہ کے پاس آتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ڈس ایبل ٹیم کےلیے ٹرائیل
عطااللہ کہتے ہے کہ لاھور میں کچھ سال پہلے قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ ٹیم کےلیے ٹرائیلز ہورہے تھیں۔ ‘ہم کل پچاسی لڑکے تھے اس میں مجھے تیسرا ٹوکن ملا وہاں بیٹھے ایک شخص نے مجھے بولا اگر ٹیم میں جانا چاہتے ہوں تو تین لاکھ روپے لے آؤں’
کہتے ہے کہ میں اس وقت ایک ہوٹل میں ڈیڑھ سو روپے دیہاڑی پر کام کرتا تھا بھلا میرے پاس تین لاکھ کہاں سے آتے؟
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ٹرائلز کے لئے تمام لڑکوں سے وہ بہتر تھا لیکن پنجاب میں ان کا سیلکشن اس لئے نہیں ہوا کہ نہ تو ان کے پاس سفارش تھی اور نہ ہی پیسے۔ عطااللہ کہتے ہیں اگر خیبر پختون خواہ کی ٹیم میں جگہ مل جائے تو اچھا ہوگا۔
شاہد افریدی کو دیکھ کر کرکٹ شروع کی
عطاللہ کہتے ہے کہ جب شاہد افریدی نے 37 گیندوں پر سینچری سکور کی تو وہ بہت چھوٹا تھا لیکن بعد میں بار بار وہی جھلکیاں دیکھ دیکھ کر ان کا بھی کرکٹ کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوا۔
عطااللہ کا دوست محمد عالم کہتے ہے کہ یہ لڑکا ٹیپ بال سے لیکر ہارڈ بل تک سب پر اچھا کھیلنا جانتا ہے۔ مزید کہا کہ لاھور اور گاؤں دونوں میں جب بھی کوئی کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو اس میں عطااللہ کی بیٹنگ کے ساتھ باولنگ قابل دید اور انداز فاتحانا ہوتا ہے۔ محمد عالم نے بھی کہا اگر اس کو ڈس ایبل ٹیم میں جگہ مل جائے تو یہ لڑکا بہت کچھ کرسکتا ہے۔
عطااللہ نے پاکستان سپر لیگ کے ٹیم پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی سے مطالبہ کیا ہے کہ جیسا انہوں نے پاکستان کے نئے لڑکوں کو موقع دیا اس طرح ان جیسے معذوری کے ساتھ کھیلنے والوں کےلیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے بھی مطالبہ کیا کہ معذور افراد کےلیے خصوصی اقدامات کریں تاکہ ان جیسے دیگر لوگوں کی زندگیاں آسان ہوں اور یہ کہ انہیں قومی کرکٹ ٹیم میں موقع دیا جائے۔
عطااللہ نے شاہد افریدی سے بھی ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ سابق کپتان انہیں اپنی جان سے بھی ذیادہ پیارا ہے.