کرم میں بھی ڈی آر سی کا قیام، یہ لوگ عوام کیلئے قابل قبول نہیں۔ سید اقبال میاں
قبائلی ضلع کرم میں ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کے ممبران نے حلف اٹھا لیا تاہم صوبائی اسمبلی کے ممبر اقبال سید میاں نے کونسل میں ایماندار اور فرض شناس ممبران لینے اور منتخب کونسل کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں گورنر کاٹیج پاراچنار میں تقریب حلف برداری کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈی سی کرم شاہ فہد، کمانڈنٹ کرم ملیشیاء جمیل الرحمٰن، کرنل جاوید الیاس، اسسٹنٹ کمشنر عمر احمد خان، ضلعی انتظامیہ کے افسران اور قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈی پی او کرم محمد قریش خان نے کہا کہ اپر اور لوئر کرم سے اکیس اکیس ممبران پر مشتمل ڈی آر سی بنائی گئی ہے، ڈی آر سی پولیس ایکٹ کے تحت ایک جرگہ سسٹم ہے جس میں وہ مسائل حل کیے جائیں گے جن میں ایف آئی آر کی ضرورت نہ ہو اور فریقین اس بات پر راضی ہوں کہ ان کا مسئلہ جرگہ کے ذریعے حل ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈی آر سی خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017 آرٹیکل 73 کے تحت بنی ہے جو تھانے کے لیول پر جرگہ کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرے گا۔
ڈی پی او کرم نے کہا کہ ڈی آر سی کے قیام سے لوگوں کو ریلیف ملے گا اور عوام کے مسائل جیسے پانی، زمین، قرضہ جات، گاڑیوں وغیرہ اور دیگر چھوٹے موٹے مسائل جو ڈی آر سی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ان پر جرگہ ہوگا اور بغیر پیسوں کے ان مسائل کو حل کیا جائے گا۔
تقریب کے آخر میں ڈی پی او کرم محمد قریش خان نے نئے منتخب ڈی آر سی ممبران سے حلف لیا اور ممبران نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ علاقے کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے عوام اور پولیس سے بھر پور تعاون کریں گے۔
دوسری جانب ضلع کرم سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی سید اقبال میاں نے کہا ہے کہ ڈی آر سی قبائلی اضلاع میں عوام کی بہترین مفاد کی خاطر بنایا گیا ہے تاہم ضلع کرم میں ڈی آر سی میں جو لوگ لئے گئے ہیں یہ لوگ عوام کیلئے قابل نفرت ہیں اور ایف سی آر کے ذریعے ان لوگوں نے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس وجہ سے یہ لوگ عوام کیلئے قابل قبول نہیں۔
اقبال سید میاں نے کونسل میں مخلص اور ایماندار لوگوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اعلی حکام سے بھی اس حوالے سے رجوع کریں گے۔
پاراچنار میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ضلع کرم سے رکن صوبائی اسمبلی سید اقبال میاں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے ضلع کرم کے لئے ڈی آر سی میں جو لوگ شامل کئے گئے ہیں اس حوالے سے انہوں نے اپنے تحفظات سے پولیس کو آگاہ کرلیا تھا مگر اس کے باوجود ڈی آر سی میں وہ لوگ شامل کئے گئے ہیں جو کہ سیاسی ہیں اور ایف سی آر کے ادوار میں عوام کا چمڑہ اتارنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اس وجہ سے وہ عوام کیلئے قابل نفرت ہے اور عوام مزید ان چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتے اس وجہ سے نیک اور ایماندار لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے ورنہ موجودہ کونسل کے خلاف اعلی حکام تک جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
"بلدیاتی الیکشن اور ڈی آر سی، اے ڈی آر نظام کو مسترد کرتے ہیں”
مصالحتی جرگوں کا قیام کیا واقعی قانون سے متصادم ہے؟
"جرگہ سسٹم کیخلاف نہیں، یکطرفہ فیصلہ مسترد کرتے ہیں”
” لنڈی کوتل کا ہر حجرہ ڈی آر سی اور اے ڈی آر سنٹر ہے”
مصالحتی جرگے، اکاخیل قبیلے کا بھی مخالفت کا اعلان
اقبال سید میاں کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا اور پی ٹی آئی کے کارناموں میں فاٹا انضمام سرفہرست ہے اور آج تمام قبائلی اضلاع میں عدالتی نظام نافذ ہے اب قبائلی اضلاع میں ترقی کا دور دورہ ہوگا یہاں سڑکوں سکول اور روزگار کی کمی نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ قبائلی ضلع خیبر اور مہمند میں ان مصالحتی جرگوں کی شدید مخالفت کی جارہی ہے، اگرچہ باجوڑ میں مصالحتی جرگوں کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے مشران نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر خیبر اور اسسٹنٹ کمشنر باڑہ نے ADR اور DRC میں جو لوگ منتخب کیے ہیں ان کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ سب سلیکٹیڈ ہیں۔
دوسری جانب خیبر یوتھ فورم نے ضم شدہ اضلاع میں تشکیل پانے والے مصالحتی جرگوں کو ایف سی آر کی باقیات قرار دیا۔