فیچرز اور انٹرویو

"جنگل کاٹنے کی بجائے لگانے کی ضرورت ہے”

نصیب یار چغرزے

حکومت ہر سال اربوں روپے درخت لگانے پر خرچ کرتی ہے، موجودہ حکومت کا تو اربوں درخت لگانے کا منصوبہ بھی جاری ہے جسے بلین ٹری سونامی کا نام دیا گیا ہے مگر ہمارا موضوع حکومت یا اس کے منصوبے نہیں بلکہ ہم تو ضلع بونیر کی ایک ایسی شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانا چاہتے ہیں جنہوں نے تن تنہا مسلسل بیس سال محنت کرکے ایک بنجر اراضی کو سرسبز جنگل میں تبدیل کر دیا ہے۔

آج سے 20 سال قبل تحصیل مندنڑ کے علاقے امبیلا کے رہائشی انجنیئر ڈاکٹر محمد نقاب خان نے درخت یہ سوچ کر لگانا شروع کیے کہ پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے اور گلوبل وارمنگ سے بھی ہمارا خطہ متاثر ہونے کا خدشہ زیادہ ہے اس لیے جنگل کاٹنے کی بجائے لگانا ضروری ہیں۔

یہ سرسبز و شاداب جنگل ڈاکٹر نقاب کی 20 ساہ محنت کا نتیجہ ہے

ڈاکٹر نقاب نے 240 کنال زمین خرید کر وہاں درخت لگانا شروع کردیے جو آج ایک بڑا جنگل ہے، ان کے لگائے گئے درختوں میں میوہ دار اور پھول دار درخت اور پودے بھی ہیں۔

ڈاکٹر محمد نقاب خان کہتے ہیں کہ انہوں نے آم، مالٹا، آڑو اور جامن کے پودے بھی لگائے تھے جو کامیاب رہے، "آم تو بہت ہی اچھے ہیں، کوئٹہ سے انگور کی ایک قِسم بھی لا کر کاشت کی لیکن وہ یہاں کامیاب نہیں ہوا۔”

بونیر میں جنگلات کتنے محفوظ ہیں

بونیر میں سوئی گیس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عوام ایندھن کے لیے لکڑیاں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے جنگلوں کو محفوظ رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے درختوں کی کٹائی پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن پہلے جو کٹائی جنگلوں کی ہوئی تھی اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔

موجودہ حکومت پچھلے کئی سالوں سے مسلسل درخت لگا رہی ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ ان میں یوکلیپٹس (لاچی) کی تعداد ذیادہ ہے جو کہ نقصان دہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد نقاب خان نے کہا کہ وہ اپنی 240 کنال زمین پر یوکلیپٹس کو پسند نہیں کرتے بلکہ جہاں بھی یہ مضر درخت نظر آتا ہے اس کو اکھاڑ پھنکتے ہیں۔

20 سال قبل کا منظر

وہ ایندھن کے لیے لکڑی کے استعمال کے بارے میں عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جنگل لگائیں پھر جب آپ شاخ تراشی کریں گے تو اس سے ایندھن کے لیے کافی ساری لکڑی ملے گی۔

پرندے اور جنگل

ڈاکٹر محمد نقاب خان کہتے ہیں کہ ان کے لگائے گئے جنگل میں پرندے بھی انہیں پہچانتے ہیں اور جب کبھی وہ جاتے ہیں تو قریب آکر بیٹھ جاتے ہیں، کوئی اور پاس ہو تو پھر زیادہ قریب نہیں آتے، ہنس کر بولنے لگے "یہاں تو لوگ جنگلی جانوروں کو دیکھ کر گولی مارتے ہیں مگر میں نے علاقہ والوں سے کہہ رکھا ہے کہ میرے جنگل میں یا آس پاس کوئی بھی جانور ہو اس کو مارنا نہیں ہے حتٰی کہ وہ اگر میرے پالتو جانورں یا مرغیوں کو نقصان بھی پہنچائیں تو خیر ہے۔

محنت پر یقین

ٹی  این این کے ساتھگفتگو میں امبیلا سے تعلق رکھنے والے سائنس ٹیچر عمر رحیم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد نقاب خان کا جو جنگل نظر آ رہا ہے یہ ان کی بیس سالہ محنت کا نتیجہ ہے، اس میں ہر قسم درخت اور پودے موجود ہیں جن میں ایندھن کے استعمال کے لیے بروئے کار لائے جانے والے درخت بھی تناور ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ پھول دار درخت اور گلاب کی مختلف اقسام بھی ہیں۔

جنگل میں میوہ دار درختوں کے علاوہ گلاب کے پھول بھی ہیں

عمر رحیم کے مطابق جب ڈاکٹر نقاب یہ جگہ بنا رہے تھے تو علاقہ کے اکثر لوگ کہتے تھے یہ وقت کا ضیاع ہے مگر اب جب دیکھتے ہیں تو انہیں شاباش دیتے ہیں۔

ڈیپٹی کمیشنر بونیر محمد خالد نے انجنیر ڈاکٹر محمد نقاب خان کے اس اقدم کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ڈاکٹر نقاب بونیر کے عوام کے لیے ایک رول ماڈل ہیں، "انہوں نے جو کام اپنی مدد آپ کے تحت کیا ہے اس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button