درندوں کی درندگی کا ٹرینڈ، خاموشی بھی جرم کا حصہ!
سٹیزن جرنلسٹ رمل اعجاز
کہتے ہیں کہ پچھلے وقتوں میں جہالت کی بنا پر لوگ اپنی بیٹیاں زندہ درگور کردیا کرتے تھے، لیکن آج اس درندوں کے معاشرے میں سانس لیتے ہوئے مجھے سمجھ آتی ہے کہ پیدا ہوتے ہی درگور کردینا شاید کسی کے ہاتھوں زندہ لاش بنانے سے بہتر تھا۔
نانی اماں بتاتی ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکی پے بدکاری کا الزام جب سامنے آیا تو سوائے آنسوؤں کے اس کے پاس کچھ نہ تھا، اس سے ایک ہی سوال بار بار پوچھا جاتا رہا کہ آخر کس کے ساتھ کیا منہ کالا۔۔۔ خاموش رہنے پر باپ نے جب اس کو گرم سیخ سے جگہ جگہ داغا تو اس نے تڑپتے ہوئے اشارہ اپنے ہی سگے بھائی کی جانب کیا۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔ اب تو وہ وقت ہے کہ کوئی رشتہ کوئی تعلق پاک نہیں!
میں خاموش رہی، بہت عرصہ خاموش رہی۔ دل میں کہیں احساس تھا کہ خاموشی بھی جرم کا حصہ ہی ہے اور پھر جانا کہ خاموش رہنے سے بھی تو معاشرے نہیں بدلتے۔۔۔ میں بات کرنا چاہتی ہوں پاکستان میں پھیلے آج کل کے ٹاپ ٹرینڈ کی، جی ہہاں یہ کسی ٹیوٹر یا انسٹاگرام کا ٹرینڈ نہیں بلکہ درندوں کی درندگی کا ٹرینڈ ہے۔
دعا منگی کی گمشدگی کا وقعہ سامنے آتے ہی بہت سے لوگوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آیا کہ اس کا پہناوا ایسا تھا کہ اس کو غائب کرلیا گیا۔ میرا سوال ایسے لوگوں سے یہ ہے کہ پھر اس چند ماہ کی بچی کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی صفائی تک خود پیش نہیں کرسکتی تھی؟ جب کہا گیا کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا ایسے ماحول میں تھا جس کی وجہ سے واقعہ پیش آیا تو میرے دل میں سوال آیا کہ پھر اس 13 سال کی بچی کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنے ہی بچپنے میں ایک بچے کو جنم دیا۔۔۔ جب سوال اٹھے کے غیر مردوں کے ساتھ عیاشی اس سب کا سبب بنی تو میں نے پوچھنا چاہا کہ اس سگے چچا کے بارے میں کیا کہیں گے لوگ جس کی درندگی نے اپنے ہی خون کو نہیں بخشا جو کہ اس بچی کا محرم ہوتے ہوئے اس کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا بیٹھا تھا۔
جب معاشرے نے کھلے عام کہا کہ رات گئے تک باہر گھومنے سے ایسے مسائل درپیش ہیں تو میں نے جاننا چاہا کہ کیا اب قبر میں لیٹنے کے بھی اوقات طے ہیں؟ اس عورت کا کیا قصور تھا جسے مردہ حالت میں بھی نہیں چھوڑا گیا؟
میں تو کہتی ہوں کہ اب تو وہ دور آگیا ہے کہ جگہ، ماحول اور وقت کچھ معانی نہیں رکھتے کیونکہ ہم نے خود ایک ہسپتال کے بستر پر پڑی مریضہ کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھی ہے۔۔ سوچتے تھے کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک جانے کے صرف راستے محفوظ نہیں، اب تو ان اداروں کے اندر سے بھی کسی معصوم کی چیخوں کی پکار اور درندگی کی بدبو آتی ہے۔
عورت کو ہمیشہ ذمہ دار ٹھہرانے والے، عورت کو ہر ظلم ہر زیادتی کا شکار بنانے والے، عورتوں کے محافظ اپنے دفاع میں اپنی عزتوں کو آگے پیش کرنے والے، عورت ذات کو کم تر سمجھ کر اوروں کے سامنے جھکنا سکھانے والے ہی دراصل اس سب کے ذمہ دار ہیں۔ افسوس کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ان درندوں کو بڑھاوا دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔