”پاکستان سعودی حکومت کی طرز پر بچپن کی شادیوں کو قانونی جرم قرار دے”
خیبر پختونخواہ کی سول سوسائٹی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت سعودی حکومت کے طرز پر بچپن کی شادیوں کو قانونی جرم قرار دے کر فوری پابندی عائد کرے۔
حال ہی میں دنیا بھر میں چھپنے والی خبروں کے مطابق سعودی حکومت نے بچپن کی شادیوں کو ممنوع قرار دیا ہے. اطلاعات کے مطابق وزارت انصاف کے چیئرمین اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ولید الصمعانی نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی شادیوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادیوں کے لیے خصوصی عدالت سے اجازت لینا لازمی ہوگا۔
سماجی کارکن قمر نسیم اور بچپن کی شادیوں کے خاتمے کے صوبائی اتحاد کی کوآرڈینیٹر نے کہا ہے کہ بچپن کی شادیوں کے خاتمے کے لیے مضبوط اور مربوط قوانین اور صوبائی اور قومی پالیسیوں کا ہونا اور ان پر عملدرآمد کیا جانا انتہائی ضروری ہے. سعودی عرب میں بچپن کی شادیوں کے حوالے سے قانون سازی خیبر پختونخوا حکومت کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون فوری طور پر اسمبلی سے پاس کروائے. اس وقت بچپن کی شادیوں کی ممانعت کا قانون کابینہ کے پاس زیر غور ہے جس پر مہینوں تک کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں بچپن کی شادیوں کی ممانعت کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کے پاس اس حوالے سے قانون سازی نہ کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا۔
پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوآرڈینیٹر تیمورکمال کا کہنا ہے کہ بچپن کی شادیوں کی روک تھام کے لیے حکومت, سول سوسائٹی کی تنظیموں, علماء, اساتذہ اور معاشرے کے تمام ذمہ داروں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب ہی بچپن کی شادیوں پر قابو پایا جاسکے گا۔
اجالا نیٹ ورک کی صوبائی کوآرڈینیٹرثنا ء احمد نے کہا کہ پاکستان میں بچپن کی شادیوں کا مسئلہ مذہبی تشریحات کا نہیں بلکہ روایات کے نام پر ایسی رسومات کو ترویج دی جاتی ہے, پاکستان میں قوانین تو بنا لیے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد اس لیے نہیں ہو پاتا کیوں کہ لوگ دل سے ان قوانین کو تسلیم نہیں کرتے, یہاں علماء کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اسلام نے عورتوں کو جو مقام عطا کیا ہے اس سے ان کے حقوق کا دفاع اور ان کے حقوق کی ترویج ممکن ہوسکے۔
معروف مذہبی رہنما مفتی جمیل احمد نے کہا کہ اسلام بچپن کی شادیوں کی ترویج نہیں کرتا اسلام نکاح کو مضبوط معاہدہ کے طور پر بیان کرتا ہے اور یقینا مضبوط معاہدہ دو عاقل اور بالغ افراد کے درمیان ہی ممکن ہے, کم عمر بچے اور بچیاں مضبوط معاہدہ کرنے کے اہل نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ وہ سعودی حکومت کے طرز پر قانون سازی کرنے کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر شادی کو ممنوع قرار دیا جائے اور ایسی کسی بھی شادی کے لیے خصوصی عدالت کی اجازت کو لازمی بنایا جائے۔
خیبرپختونخوا میں بچپن کی شادیوں کے حوالے سے قائم صوبائی اتحاد کے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھر میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے جس کے مطابق پاکستان بچپن کی شادیوں کے حوالے سے چھٹے نمبر پر ہے جہاں قریبا 1.9 ملین لڑکیوں کی شادیاں بچپن میں ہی کردی جاتی ہیں جبکہ تین فیصد لڑکیوں کی شادیاں پندرہ سال سے کم عمر میں کردی جاتی ہیں.