عوام کی آوازقومی

یونیسیف کی پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات کی اپیل

اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے ادارے یونیسف نے پاکستان میں کم عمری کی شادی کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے معروف اداکارہ اور یونیسف کی قومی سفیر صبا قمر کے ہمراہ ایک ویڈیو مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق مہم کا مقصد معاشرے کو کم عمری کہ شادی جیسی فرسودہ روایت کے خلاف متحد کرنے، لڑکیوں کو بااختیار بنانے اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

ویڈیو پیغام میں صبا قمر نے کم عمری کی شادی کے بچوں، خصوصاً لڑکیوں، پر پڑنے والے منفی اثرات کو اجاگر کیا اور عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس روایت کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں۔

صبا قمر نے کہا کہ "پاکستان میں کسی بھی بچے کو ایسی شادی یا مستقبل پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جو اس نے خود نہ چُنا ہو۔ یہ نہ صرف ان کی صحت بلکہ ان کی تعلیم کے لیے بھی خطرناک ہے۔ سندھ کے ضلع سجاول میں، میں نے خود دیکھا کہ کم عمری کی شادی کیسے زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں انعم نذیر جیسی باہمت لڑکیوں سے ملی، جنہوں نے اپنی برادری میں تین کم عمری کی شادیوں کو روکا۔ مجھے فخر ہے کہ میں ان بچوں کی آواز بن رہی ہوں جو چپ چاپ ظلم سہتے ہیں۔”

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے چھٹے نمبر پر ہے۔ اندازاً 1.9 کروڑ لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی ہو چکی ہے، جن میں سے نصف لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ماں بن جاتی ہیں۔ صرف 13 فیصد شادی شدہ لڑکیاں ثانوی تعلیم مکمل کر پاتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ لڑکیوں میں یہ شرح 44 فیصد ہے۔

یونیسف پاکستان کے نمائندے عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ "کم عمری کی شادی صرف غربت نہیں بلکہ گہرے سماجی رویوں اور صنفی امتیاز کا نتیجہ ہے۔ ہمیں قانونی اصلاحات، سماجی رویوں میں تبدیلی، اور نوعمر لڑکیوں کی تعلیم و صحت میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جب تک پاکستان اپنی آدھی آبادی کو پیچھے چھوڑے گا، وہ ترقی نہیں کر سکتا۔”

یونیسف نے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کی جانب سے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور دیگر صوبوں و علاقوں سے بھی اس فیصلے کی پیروی کرنے کی اپیل کی ہے۔

یہ ویڈیو مہم یونیسف، UNFPA، UN Women اور حکومتی شراکت داروں کی مشترکہ کاوشوں کا حصہ ہے۔ اس مہم میں شامل اقدامات درج ذیل ہیں:

  • تمام صوبوں میں شادی کی قانونی عمر 18 سال مقرر کرنا۔
  • "بولو” جیسی ابلاغی مہمات، والدین، علما اور کمیونٹی رہنماؤں سے مکالمہ۔
  • لڑکیوں کی قیادت پر مبنی مہمات اور نوجوان چیمپئنز کی حوصلہ افزائی۔

عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ "صبا قمر بچوں کے حقوق کی ایک موثر ترجمان ہیں، اور ہم ان کے ساتھ مل کر ایک ایسے پاکستان کے لیے کوشاں ہیں جہاں ہر بچہ، خاص طور پر ہر لڑکی، تعلیم حاصل کر سکے، ترقی کرے، اور محفوظ مستقبل کی جانب بڑھ سکے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button