تنخواہوں میں اضافے کے باوجود، ٹیکس کی کٹوتی سے تنخواہ دار طبقہ پریشان
محمد بلال یاسر
مس لبنیٰ ، گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برخلوزو ماموند میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، وہ کہتی ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ خوش آئند تھا مگر مجھے شدید دھچکا اس وقت لگا کہ جب میری تنخواہ میں 20 ہزار اضافہ ہوا ، مگر ٹیکس میں پانچ ہزار روپے کے قریب کٹوتی ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انکی ساری توقعات ماند پڑ گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچت کا ہر راستہ ختم ہو گیا ہے اور آمدنی و پیداوار بڑھتے ہوئی اخراجات سے بمشکل ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ اکثر تنخواہ دار گھرانے کے پٹرول اور توانائی کے بل ان کی آمدنی کا 15 سے 25 فیصد حصہ چھین لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب ایک بڑا حصہ ٹیکس کی طرف جا رہا ہے۔ وقت گزارانا بہت مشکل ہوگیا ہے، ارباب اختیار ان فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور ہمیں ریلیف دیں۔
پاکستان میں ہر سال بجٹ پیش کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ ملک میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی بجائے تنخواہوں پر ٹیکس کیوں بڑھایا جاتا ہے اور بڑے شعبہ جات، جیسا کہ زراعت، ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور ایکسپورٹرز، کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے تنخواہ دار طبقے کا معاشی بوجھ ہی کیوں بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس سال کا بجٹ بھی کچھ مختلف نہیں اور وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پارلیمان میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد تنخواہ دار طبقے کو رواں مالی سال میں پہلے سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ گیا۔
پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات حزب اللہ نے بتایا کہ رواں سال بجٹ کے بعد ان کی تنخواہ میں 10380 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس کے مد میں ان سے 5200 روپے دوبارہ ٹیکس کے کٹوتی میں کاٹے جائے گے۔ مجھے اس اضافے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ جو اضافہ ہونا تھا وہ حکومت نے آدھا واپس ٹیکس میں کاٹ لیا ہے ، ریلیف کی بجائے مجھے مشکل میں ڈال دیا ۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کو دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم تنخواہ ملتی ہے لیکن سب سے زیادہ انکم ٹیکس بھی وہی ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تمام پیشوں میں تنخواہوں کا حقیقی جائزہ لینے والے قومی اعداد و شمار موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ اس کا شکار بن گیا ہے ۔
صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ کیوں ؟
انجنیئر نور حکیم جو اپنے شعبے کے علاوہ ٹیکسز کے نظام پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ باقی شعبوں کے مقابلے میں اس طبقے سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا نہایت آسان ہے۔ اس لیے جب حکومت کو زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا ہے تو دوسرے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی بجائے تنخواہ دار طبقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ تنخواہ دار طبقہ ایک آرگنائزڈ شعبہ ہے جس کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے، ان کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ اس پر ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھا لیں۔ اور ان پر ٹیکسز لاگو کریں۔
انھوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ میں دوسرے شعبوں کو لانے کے لیے بہت زیادہ کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ایف بی آر بھی آسان راستہ اپناتا ہے۔ اس لیے ان عہدوں پر فائز آفسران اور عہدیداران جان چھڑانے کی خاطر اور حکومت کی ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کے خاطر تنخواہ دار طبقے کو آسان شکار سمجھ کر ٹیکسز بڑھا دیتے ہیں ، جو کہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ، ان تنخواہ دار طبقے کیلئے بڑی پریشانی کا سبب ہے۔