عوام کی آوازلائف سٹائل

خیبر پختونخوا میں سینی ٹیشن سروسز کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر!

محمد فہیم

خیبر پختونخوا حکومت نے 2014 میں قانون منظور کرتے ہوئے پشاور میں سینی ٹیشن سروسز کمپنی قائم کی جن کو ابتداء میں صرف پشاور کے شہری علاقے دئے گئے اور اس وقت 5 سالہ پالیسی کے تحت کمپنی کو پشاور کے تمام علاقوں کی منتقلی اور خود مختار بنانے کا وعدہ کیا گیا تاہم 10 سال گزرنے کے بعد بھی یہ وعدہ ایفا نہیں ہوسکا۔

سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کے قیام سے اب تک اس کمپنی کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس کمپنی کے قیام کے بعد اس کے تحفظ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ کمپنی کو مشکل حالات میں تن تنہا چھوڑ دیا گیا۔

سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور اس وقت خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 4 ہزار 600 سے زائد ہے تاہم اس وقت کمپنی کے پاس اپنے روزمرہ کے امور چلانے کے لیے فنڈز نہیں ہے جس کے باعث کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

کمپنی کے ملازمین رواں مالی سال میں اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے چار مرتبہ ہڑتال کرتے ہوئے کام چھوڑ چکے ہیں۔

اس سلسلے میں اپریل میں ایسٹر کے موقع پر کمپنی کے مسیحی ملازمین کو تنخواہ ادا نہ کی جا سکی جبکہ ستم ظریفی ایسی کہ اپریل میں عید الفطر کے بعد بھی تنخواہ جاری نہ ہوسکی اور ملازمین کو اپریل کی تنخواہ ہڑتال کرنے پر 18 مئی کو جاری کی گئی جبکہ اب مئی کی تنخواہ کے لیے بھی ملازمین نے 2 جون کو ہڑتال کی کال دیدی ہے۔

سینی ٹیشن کمپنی کی مالی صورتحال

پشاور کی سینی ٹیشن کمپنی کا بجٹ 4 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد ہے جس میں کمپنی کو ماہانہ تقریبا 34 کروڑ روپے سے زائد درکار ہیں، ان میں 10 کروڑ روپے کے قریب ماہانہ بجلی اخراجات ہیں جبکہ 20 کروڑ روپے ملازمین کی تنخواہیں ہیں۔ اسی طرح دو کروڑ روپے سے زائد ایندھن کے خرچ اور باقی دفتری اخراجات کے لیے درکار ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کمپنی کو سالانہ 2 ارب 70 کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کرتی ہے جبکہ باقی رقم سینی ٹیشن کمپنی اپنے وسائل اور ٹی ایم ایز سے وصول کرتی ہے۔ کمپنی کے ماہانہ اخراجات میں شامل 34 کروڑ میں سے ماہانہ 10 کروڑ روپے صوبائی حکومت بجلی بلوں کی مد میں وصول کرلیتی ہے جبکہ 20 کروڑ روپے تنخواہوں کے لیے جاری کرتی ہے اور کمپنی اپنے وسائل سے ماہانہ 4 کروڑ روپے تک اکٹھے کرتی ہے جس میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔

صوبائی حکومت کے مالی بحران کے باعث کمپنی کو ماہانہ ان تنخواہوں کی مد میں 20 کروڑ روپے کی فراہمی سست روی کا شکار ہے جب حکومت گرانٹ فراہم نہیں کرتی تو ایسے میں کمپنی تنخواہ نہیں دے سکتی اور مجبورا ملازمین کو ہڑتال کرنی پڑتی ہے جس کا براہ راست اثر پشاور کے شہریوں پر پڑتا ہے۔

سینی ٹیشن کمپنی کو ٹی ایم ایز سے ملنے والی رقم

واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کے پاس اس وقت کم و بیش اڑھائی ہزار سے زائد وہ ملازمین ہیں جو پشاور کی ٹی ایم ایز سے اسے منتقل ہوئے جبکہ باقی ملازمین کمپنی نے خود بھرتی کئے ہیں۔ ٹی ایم ایز ملازمین کی تنخواہوں کی رقم ٹی ایم ایز سے کمپنی کو منتقل ہونی ہے تاہم کمپنی انتظامیہ کے مطابق ٹی ایم ایز نے رقم کی ادائیگی سے صاف انکار کردیا ہے۔

گزشتہ برس تک سینی ٹیشن کمپنی کے پشاور کی ٹی ایم ایز کے ذمہ واجب الادا رقم ایک ارب 38 کروڑ 40 روپے سے متجاوز تھی۔ ٹاﺅن ون کے ذمہ سب سے زیادہ 86 کروڑ 28 لاکھ 80 ہزار، ٹاﺅن تھری کے ذمہ 24 کروڑ 45 لاکھ 80 ہزار، یونیورسٹی ٹاﺅن کمیٹی ٹاﺅن تھری کے ذمہ 17 کروڑ 19 لاکھ 80 ہزار، ٹاﺅن فور کے ذمہ 9 کروڑ دو لاکھ 70 ہزار جبکہ ٹاﺅن ٹو کے ذمہ ایک کروڑ 42 لاکھ 80 ہزار روپے بقایاجات ہیں۔

کمپنی نے اس ادائیگی کے لیے براہ راست لوکل کونسل بورڈ سے رابطہ کیا تھا تاہم اس کے باوجود کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا۔

سینی ٹیشن کمپنی کی حدود

پشاور کی سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کو ابتدائی طور پر پشاور کی 45 یونین کونسلیں دی گئیں جن میں پشاور سٹی یونیورسٹی روڈ اور حیات آباد شامل تھیں تاہم اس میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ معاملہ خراب ہوگیا اور حیات آباد یونیورسٹی ٹاﺅن اور ریگی کی دو سے زائد یونین کونسلیں واپس لے لی گئیں۔ اس وقت سینی ٹیشن کمپنی پشاور کا ہیڈ آفس حیات آباد میں ہے لیکن جہاں ان کا ہیڈ آفس ہے وہاں آب رسانی اور کچرا اٹھانے کی ذمہ داری پی ڈی اے کی ہے اور کمپنی خود وہاں یہ کام نہیں کرسکتی جبکہ کمپنی کو کچھ عرصہ قبل مزید 22 یونین کونسلیں حوالہ کردی گئیں جس کے مجموعی یونین کونسلیں 65 ہیں جن میں سے 43 میں کمپنی براہ راست خدمات دے رہی ہے جبکہ حالیہ حوالہ ہونے والی 22 میں تمام کام ٹھیکہ داروں کے حوالے کردی گئیں ہیں اور وہاں آﺅٹ سورس کے طریقہ سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کمپنی کا مستقبل

سینی ٹیشن کمپنی پشاور آغاز سے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے پی ٹی آئی کی تخلیق ہونے کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں بھی کمپنی کیخلاف ہیں جبکہ کمپنی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین سے کام لینے کی کوشش نے سرکاری ملازمین کو بھی ان کیخلاف کردیا ہے۔ سرکاری ملازمین، میئر پشاور اور پی ٹی آئی کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتیں کمپنی کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اس کا اظہار گورنر خیبر پختونخوا بھی کرچکے ہیں۔

کمپنی ملازمین اب مسلسل ہڑتال کرتے ہوئے پہلا مطالبہ افسران کو فارغ کرنے اور کمپنی ختم کرنے کا کرتے ہیں نگران صوبائی حکومت بھی کمپنی ختم کرنا چاہتی ہے تاہم ایم ٹی آئی ختم کرنے پر پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے باعث نگران حکومت کا یہ ارمان پورا نہیں ہوسکا۔ اب نگران حکومت کمپنی کے بورڈ میں شامل پی ٹی آئی کارکنوں کو ہٹانے کا کام شروع کرچکی ہے بورڈ کے چیئرمین پی ٹی آئی کے پشاور میئر کے امیدوار رضوان بنگش ہیں جبکہ بورڈ ممبران میں حمیرہ گیلانی، گل بادشاہ، آصف خان اور گل زادہ سمیت دیگر کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button