عوام کی آوازماحولیات

شہد کی مکھیوں کا عالمی دن: مگس بان کیا چاہتے ہیں؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا میں شہد کی مکھیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سے خیبر پختونخوا میں زیادہ شہد پیدا ہوتی ہے تاہم بدقسمتی سے حکومت بین الاقوامی منڈیوں میں شہد کی فروخت کے لیے وہ اقدامات نہیں اٹھاتے جو اس کاروبار کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے ضروری ہے۔

آل پاکستان پنی بی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے شہد کی کاروبار کو فروغ، مکھیوں کی تحفظ اور بین الاقوامی منڈیوں تک کی رسائی کا مطالبہ ایسے حال میں کیا ہے جہاں آج 20 مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں  شہید کی مکھیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ امسال اقوام متحدہ اس دن کو ‘ شہد کی مکھی ماحول دوست زرعی پیدوار میں اہم عنصر’ کے نام سے منا رہی ہے۔

اس سلسلے میں آج پشاور کے ترناب فارم میں شہد کی مکھیاں پالنے والے اور شہد کی کاروباری سے وابستہ تاجروں کا اجلاس منعقد ہوا۔

اس موقع پر آل پاکستان ہنی بی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر شیخ جہاں بادشاہ نے ٹی ٹی این کو بتایا کہ اس وقت خیبر پختونخوا شہد کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں 30 ہزار تک شہد فارمز موجود ہیں جس میں 16 لاکھ افراد کام کرتے ہیں اور سالانہ پیداوار 10 ہزار میٹرک ٹن تک ہے جو ملکی پیداوار کی 33 فیصد ہے۔

ان کے مطابق اس وقت مگس بان اور کاروباری افراد مشکل حالات سے گز رہے ہیں جس میں مکھیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے اور بارڈر پر شہد کی ترسیل کے دوران سکیورٹی کے نام پر کئی دن تک روکنا شامل ہیں جس سے ہماری مکھیاں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے مر جاتی ہیں اور ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے  کہا کہ حکومتی سطح پر ہمیں شہد بیرون ممالک کے منڈیوں تک رسائی دینے کے لیے کوئی پالیسی موجود نہیں اور نہ کوئی اقدامات اُٹھائی جا رہی ہیں۔

"بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو صوبائی اور نہ وفاقی حکومتوں کی سطح پر یہ دن منایا جاتا ہے تاکہ ہم انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے لیکن ہم میڈیا کے ذریعے کوشش کرتے ہیں، آئے دن غیر ملکی منڈیا ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، حکومت ہمارے مسائل سنیں اور اس سے ہاتھ آنے والے زرمبادلہ کو ملکی معیشت میں اہم عنصر تصور کریں۔”

شیخ جہان کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے تاجروں کا انخصار ہمسایہ ملک افغانستان پر تھا لیکن افغانستان کے ساتھ منسلک راستے ناواپاس، تری مینگل، گھوسڑی اور غاخی پاس بند کردئے گئے ہیں، اسی طرح طورخم پر موجود کنٹینرز کے اندر روکے گئے باکسز میں موجود مکھیاں مرچکی ہیں اور ہمارے تاجر اس کاروبار کو ترک کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں شہد کا کاروبار ایک آسان اور منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مگس بانی سے قبل کسی ماہر یا تجربہ کار شخص سے تکنیکی مسائل پر مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے۔

آل پاکستان ہنی بی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ تقریباً گزشتہ پندرہ سالوں سے مگس بانی کررہے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس کاروبار کے گُر دیگر شہریوں کو سکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا جغرافیہ اور ماحول شہد کی مکھیوں کے لیے انتہائی مناسب اور موضوع ہے کیونکہ یہاں پر وہ پودے اچھی طرح پلتے ہیں جس سے شہد کی پیداوار یقینی ہو، ان کے مطابق اس کاروبار کو وسعت دینے کے لیے وہ خواتین اور مردوں کی تربیت بھی کرتے ہیں تاکہ وہ اس منافع بخش کاروبار سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

"ہمارے ایسوسی ایشن نے ایک غیرسرکاری تنظیم کی تعاؤن سے 400 تک افراد کو تربیت دی ہے جس میں چار خواتین بھی شامل تھیں اور اب وہ اپنا کاروبار کرکے بآسانی سے اپنی مصنوعات فروخت کرسکتے ہیں۔”

اس وقت صوبائی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے دس اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہد کی پیداوار کی تربیت دی جا رہی ہے جن میں لکی مروت، کرک، کوہاٹ، پشاور، سوات، چترال، ایبٹ آباد اور مانسہرہ شامل ہیں جن کو تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد 5 باکس مفت دئے جاتے ہیں۔

ترناب فارم میں حشرات کے شناخت کے محقیق ڈاکٹر محمد یونس کہتے ہیں مگس بانوں کو شہد کی سپلائی کے دوران سکیورٹی کے درپیش مسائل اور ماحول دوست پودوں کی اگائی جیسے مسائل حکومتی سطح پر نوٹس میں لائے گئے ہیں جبکہ مقامی سطح پر سکیورٹی کے مسائل میں کافی حد تک کمی لائی گئی ہے اور اب مگس بان مقامی پولیس کے رویے سے کافی مطمئن ہیں مگر بارڈر پر کچھ مسائل ہے جس کے خاتمے کیلئے بھی حکومت اقدامات اُٹھا رہی ہے۔

ڈاکٹر یونس کے مطابق شہد کی مکھیاں خوراک اور زراعت میں اضافے کا ایک ذریعہ ہے اگر مکھیوں کو تحفظ نہ دی گئی ہے تو اس سے نہ صرف خوراک متاثر ہوگا بلکہ شہد کی پیداوار میں بھی کمی ہوسکے گی جو ہماری معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لیے ہم ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ اس میں مرد اور خواتین دونوں تربیت حاصل کرکے اس کاروبار سے فائدہ اُٹھائیں۔

خیال رہے کہ ترناب فارم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں 15 ہزار میٹرک ٹن شہد پیدا ہوتی ہے جس میں 2 ہزار میٹرک ٹن بیرون ممالک کویت، سعودی عرب اور دبئی کو برآمد کیا جاتا ہے مگر یورپ کو تاحال رسائی حاصل نہیں ہے جس کے لیے ترناب فارم میں ایک کوالٹی کنٹرول لیب کے نام پر جدید لیبارٹری تعمیر کی جا رہی ہے جس میں بین الاقوامی معیار کے مطابق شہد کی ٹسٹ کے بعد تاجر لیبارٹری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے اپنی شہد یورپی ممالک کی منڈیوں تک پہنچاسکیں گے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button