جبری مذہب تبدیلی: ‘لاپتہ خواتین کو دارلامان نہیں اقلیتی شیلٹر ہومز میں رکھا جائے’
رفاقت اللہ رزڑوال
عیسائی برادری کی قومی امن و انصاف کے کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں ان کے بچیوں کی ایک بڑی تعداد کو جبری مذہب تبدیلی، کم عمری میں شادیاں کرنے کا ممکنہ خطرے سے بچنے اور ان کے لاپتہ خواتین کیلئے عیسائی پناہ گاہوں کا انتظام کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔
پشاور پریس کلب میں گزشتہ روز اقلیتی برادری کے غیرسرکاری تنظیم نیشنل کمیشن فار پیس اینڈ جسٹس (این سی جے پی) کے نمائندوں نے بتایا کہ سندھ اور پنجاب میں ان کے خواتین اور بچیوں کی مذہب کی تبدیلی کی رواج اور کم عمری میں شادیوں کا رواج عام ہے تو اس کے روک تھام کیلئے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں قانون سازی کی جائے تاکہ اقلیتی برادری ان مسائل سے محفوظ ہوسکیں۔
قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اقلیتی رُکن ویلسن وزیر نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ مسائل صوبہ پنجاب اور سندھ میں زیادہ پیش آ رہے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ واقعات کم ہیں مگر اس کیلئے بروقت قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ویلیسن کے مطابق اقلیتی برادری کے اکثر بچیاں جن کی عمریں 14 یا 16 سال ہوتی ہے انہیں اغواء کرکے ان پر جبری مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ان کی شادیاں کروائی جاتی ہیں جبکہ یہ مقدمات بہت زیادہ سامنے آ رہے ہیں تاہم عدالتوں میں بھی انہیں انصاف نہیں دیا جاتا ہے۔
ویلسن نے مطالبہ کیا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے اور بچیوں کی شادیوں کو قانون کے ذریعے جرم قرار دیا جائے جبکہ ان کے لاپتہ خواتین کو دارلامان میں نہیں اقلیتی برادری کے بنائے ہوئے مخصوص شیلٹر ہومز میں رکھا جائیں۔
انہوں نے عمر کی تعین کے بارے میں بتایا کہ جب ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو چرچ اور یونین کونسل میں ان کی پیدائش کا اندراج کیا جاتا ہے تو اسی تاریخ سے بچے کا عمر اٹھارہ سال ہونا/ ہونی چاہئے۔
ویلسن کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کیلئے صوبائی حکومت میں ایک بل پیش کیا گیا تھا مگر حکومت کو متعلقہ اداروں نے اور غیرسرکاری تنظٰیموں سے سفارشات مانگے تھے جس میں انہوں نے تعاون نہیں کیا تھا۔
این سی جے پی نے اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں حکومت سے آئین کے آرٹیکل 20،25 اور بالخصوص 36 پر عمل درامد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل20 کے مطابق ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے جبکہ آرٹیکل 25 کے تناظر میں تمام شہری قانونی تحفظ کے برابر کے حقدار ہے اور آرٹیکل 36 کے تحت اقلیتوں کے حقوق، مفادات کی تحفظ اور حکومتوں میں نمائندگی دینے کا تقاضہ کرتی ہے۔
این سی جے پی کے رُکن عائلہ گل نے ٹی این این کو انسانی حقوق کی کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین اور بچیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرایا جاتا ہے۔
‘یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہو رہے ہیں، ہمارا خیال ہے کہ آف دی ریکارڈ ان کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہیں لیکن لوگ اسے اپنی سماجی روایات کا پاس رکھتے ہوئے چھپاتے ہیں حالانکہ بارہ سال کی بچیوں کی بھی شادیاں ہو رہی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں شادی کی عمریں اٹھارہ سال تک ہوتی ہے اس کے علاوہ جن بچوں یا بچیوں کی شادیاں کم عمری میں ہوتی ہے تو انہیں سماجی اور ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے بچوں کی خاندان اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔
جبری مذہب تبدیلی اور کم عمری کی شادیاں اسلام کی روشنی میں
دین اسلام کے مذہبی علماء جبری مذہب کی تبدیلی اور وسائل کی عدم موجودگی میں شادیاں کرنا غیرشرعی قرار دے رہے ہیں۔
اکوڑہ خٹک کے دارلعلوم حقانیہ کے مدرس مولانا مفتی ڈاکٹر شوکت علی نے ٹی این این کو بتایا کہ قرآن کریم میں واضح احکامات میں موجود میں ہے کہ ‘ کسی پر بھی کوئی سختی اور زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرسکتا ہے۔’
مفتی شوکت علی کہتے ہیں ‘مسلمان لڑکے اور ہندو مذہب کے لڑکی کا آپس میں شادی نہیں ہوسکتی البتہ لڑکی شادی اور اسلام قبول کرنے پر قائل ہو تو شادی ہوسکتی ہے لیکن اگر کسی ہندو لڑکی کو اغواء کرکے زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کی جائے تو یہ جبر ہے اور اسلام میں اسکی ممانعت ہے۔’
انکا کہنا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں کسی پر زبردستی اسلام قبول نہیں کیا گیا ہے تو ان تمام شرعی مسائل سے واضح ہے کہ اسلام میں پہلے ہی سے احکامات موجود ہیں تو اس میں قوانین بنانے کا تُک نہیں بنتا۔
مفتی شوکت علی نے کم عمری کے شادیوں پر بتایا کہ اسلام میں لڑکا اور لڑکی کی شادی کی شرط بلوغت رکھی گئی ہے لیکن اگر ان کے معاشی اور سماجی حالات بہتر نہ ہوہ تو ضروری نہیں کہ شادی کی جائے۔
‘شادی کرنا فرض نہیں بلکہ سنت عمل ہے، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے شرعی نہیں۔ سماج کا یہی مسئلہ ہے کہ تعلیم تربیت اور اقتصاد درست نہ ہو اور والدین بچی سے جان چھڑا کر شادی کرے تو اس سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہم ضروری وسائل کے بغیر شادیاں کرتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے۔’
ان کے بقول ‘یہاں پر قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان قوانین کا نفاذ چند لوگ اپنی ذاتی فوائد کی حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں مثلاً کوئی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انتقام لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ حقائق مختلف ہوتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ قوانین کی بجائے قرآن کی احکامات پر عمل درآمد ضروری ہے۔’
جبری مذہب کے تبدیلی اور کم عمری کے شادیاں روکنے کیلئے پاکستان کی عدالتوں اور حکومت نے بار بار مذہب کی تبدیلی اور اقلیتوں کی خواتین سے شادی کرنے کو غیر قانونی جرم قرار دیا ہے اور انہیں ہر قسم کا تحفظ دیا ہے۔
گزشتہ ماہ فروری کی سولہ تاریخ کو پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے برطانوی وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہر قسم کے اقدامات کر رہا ہے اور یہ حقوق انہیں پاکستان کے آئین میں دیئے گئے ہیں، انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے، جن میں مذہب، تعلیم کی حاصل اور کام کی آزادی حاصل ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی کا کم از کم 2 فیصد ہندو، 1 فیصد عیسائی، 2 فیصد احمدی اور 3 فیصد دیگر اقلیتی لوگ آباد ہیں۔