خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا ایک تفصیلی جائزہ
ارشدعلی خان
صوبائی درالحکومت پشاور،مردان او سوات سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں امن و امان کی عمومی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے،کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب صوبے کے مختلف علاقوں میں قتل کے اٹھ دس جرائم نہ ہوتے ہو،اسی طرح سٹریٹ کرائمز کی شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے اور پشاور سمیت دیگر علاقوں میں اغوا برائے تاوان او بھتے کے لئے کالز کا سلسلہ بھی شدت پکڑنے لگا ہے۔
ميڈیا رپورٹس کے مطابق پشاور سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں بھتہ خوری کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے تاہم صوبائی درالحکومت پشاور میں بھتہ خوری کے لیے گھروں او حجروں پر ہینڈ گرینڈز کے حملے معمول بنتے جا رہے ہیں،گزشتہ ایک ہفتے کے دوران حیات آباد سیمت پشاور کے دیگر علاقوں میں ہینڈگرینڈ پھینکنے کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جس سے عوام الناس میں شدید خوف ہراس پھیل گیا ہے ،ان میں بیشتر واقعات کو بھتہ خوری سے منسوب کیا جا رہا ہے جو پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ( حیات آباد او تہکال میں پھینکے گیے ہینڈ گرینڈ کے مقدموں میں اب تک پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے )۔
اسی طرح صوبے کے دوسرے بڑے شہر مردان میں بھی امن و امان کی صورتحال پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،گزشتہ روز شہر کے سب سے مصروف کاروباری مرکز کالج چوک میں دن دھاڑے فائرنگ سے میڈیکل سٹور کے ملازم لڑکے کو قتل کیا گیا ( پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے)اس سے قبل مردان کے علاقے بخشالی میں گھریلو تنازعے پر بچوں اور خاتون سمیت پانچ افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ گذشتہ ہفتے دوسہرہ چوک میں حساس ادارے کے ملازم کو مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے ٹارگٹ کیا گیا۔
تھانہ چورہ کے نزدیک خودکش حملہ آوار کا خود کو بارودی مواد سے اڑانا بھی گذشتہ دنوں کا واقعہ ہے(خوش قسمتی سے خودکش حملہ آور تھانے کی عمارت تک نہ پہنچ سکا ورنہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی)،یہ گزشتہ ایک ہفتے کے اعداد و شمار ہیں ورنہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے،اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائیلی اضلاع میں متواتر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس سے مقامی لوگ سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں جنت نظیر وادی سوات کی جسے پاکستان کا سوٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے ،سوات میں گزشتہ دنوں بالترتیب تین واقعات ہوئے جس نے سوات کا نقشہ ہی بدل دیا اور سوات کے رہائشی امن کی خواہش لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
سب سے پہلے خوازہ خیلہ بائی پاس پر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں دو ”دہشت گردوں” کے مارے جانے کی خبر آتی ہے تاہم جب خبر کی تحقیق کی جاتی ہے تو مارے جانے والے ”عام شہری” ثابت ہوتے ہیں جنہیں پیسوں کے لین دین اور تنازعے پر جان سے مار دیا جاتا ہے (اس واقعے کی پوری تفصیل روزنامہ مشرق کے نمائندے اور سینئر صحافی فیاض ظفر کی سوشل میڈیا وال پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے )،اس واقعے پر بھی احتجاج کیا جاتا ہے۔
اس واقعے کے اگلے دن سوات کے علاقے گلی باغ میں نامعلوم مسلح افراد ایک سکول وین پر فائرنگ کرتے ہیں اور باآسانی فرار ہوجاتے ہیں،واقعے میں سکول وین کا ڈرائیور جاں بحق جبکہ دو بچے زخمی ہوتے ہیں،اسی دن لوئر دیر میں دو فریقین کے درمیان جائیدار تنازعے پر فائرنگ ہوتی ہے جس کی زد میں سکول وین آجاتی ہے اور اس واقعے میں بھی تین بچے زخمی ہوتے ہیں۔
گلی باغ واقعے میں جاں بحق ڈرائیور کی میت سڑک پر رکھ احتجاج شروع ہوتا ہے جو دو دن جاری رہتا ہے جس کے بعد انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان عارضی معاہدہ ہوتا ہے اور احتجاجی دھرنا ختم کر دیا جاتا ہے تاہم اسی شام مینگورہ کے نشاط چوک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ امن کی خواہش لیے جمع ہوتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سوات میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکا جائے،مظاہرے سے جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد خان،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتون نے بھی خطاب کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی قیادت کو مظاہرے سے خطاب کرنے سے روکا گیا جس کی بظاہر وجہ یہ نظر آتی ہے کہ لوگ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے خفہ ہیں،سوات چونکہ وزیراعلی محمود خان کا آبائی علاقہ ہے اس لئے بھی وہاں کے لوگ اپنی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں مگر اتنے بڑے واقعات ہونے کے باوجود محمود خان نے تاحال سوات کا دورہ نہیں کیا اور وہ عمران خان کی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔
کچھ عرصہ قبل دہشت گرودں کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہونے والے ڈی ایس پی پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی یرغمال بنایا گیا،امن لشکر کے سرکردہ رہنما ادریس خان کو ساتھیوں سمیت آئی ای ڈی بلاسٹ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس کی باقاعدہ ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی۔
نشاط چوک میں ہوئے احتجاج کے بعد یہ لگنے لگا ہے کہ سوات کے رہائشی دوبارہ آئی ڈی پیز بننے کے لئے تیار نہیں اور موجودہ صورتحال میں زیادہ ذمہ دار صوبائی حکومت کو سمجھتے ہیں کیونکہ صوبائی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے جس کی سربراہی وزیراعلی محمود خان کے مشیر خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کی،ان کی سبرہراہی میں وفد نے کئی بار افغانستان کا دورہ کیا اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے بعد صوبائی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تاہم اب مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
نشاط چوک میں ہوئے احتجاج کو اگر الارم مان لیا جائے تو ملک ،حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ اب لوگ زبردستی کی بدامنی سہنے کے لئے تیار نہیں۔
وما علینا الابلاغ
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔