ضم اضلاع میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو ڈومیسائل بنانے میں مشکلات درپیش
ضم شدہ اضلاع میں اقلیتی برادری کے لوگوں کو ڈومیسائل بنانے کی اجازت تو مل گئی ہے مگر این او سی کی شرط کسی عذاب سے کم نہیں۔
ضلع باجوڑ کے رہائشی (ن) مسیح سے ڈومیسائل بنانے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے این او سی مانگا تو اُس نے پشاور انتطامیہ سے این او سی مانگا۔ پشاور کے انتظامیہ کے دفتر کے ایک کلرک نے دس ہزار روپے لیکر این او سی دیا۔ (ن)مسیح کہتے ہیں کہ پیسے دیکر انہوں نے بڑی مشکل سے این او سی حاصل کیا کیونکہ پشاور والے ٹال مٹول کرتے رہے اور جب پیسے دئے تو اُس کو این او سی دیا گیا۔
باجوڑ مینارٹی ایسوسی ایشن کا صدر جمیل بسمل جوکہ ہندو برادری سے تعلق رکھتا ہے گزشتہ 12 سالوں سے ضلع باجوڑ میں اپنے اہلخانہ سمیت مقیم ہیں۔ جمیل بسمل کا کہنا ہے کہ ضلع باجوڑ کی انتظامیہ بہت زیادہ تعاون کرتی ہے اور ڈومیسائل بنانے میں ہمارے ساتھ بہت مدد کی ہے لیکن اقلیتی برادری جوکہ ملک کے دوسرے حصوں اور پشاور سے یہاں شفٹ ہوگئی ہے ان کو این او سی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔
جمیل بسمل کہتے ہیں کہ پشاور انتظامیہ والے این او سی بڑی مشکل سے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ضلع باجوڑ میں اقلیتی برادری کے افراد ڈومیسائل بنانے سے قاصر ہے۔
ضلع باجوڑ میں جن مینارٹی لوگوں کے باجوڑ کے ڈومیسائل بنے ہیں تو اُنہیں پہلے سے این او سی فراہم کی گئی تھی جس کے بعد ان کو ڈومیسائل جاری کیاگیا لیکن اب بھی زیادہ تر برادری ڈومیسائل کے حصول سے محروم ہیں جس کیوجہ سے ان کو نوکری کیلئے اپلائی کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور اکثر اقلیتی برادری کیلئے مختص اسامیاں خالی رہ جاتی ہیں۔
ضلع باجوڑ میں 160 سے زائد اقلیتی برادری سول کالونی خار اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار میں رہائش پذیر ہیں اور روزگارکے سلسلے میں یہاں پر چار دہائیوں سے مقیم ہیں۔
باجوڑ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے اہکار نے بتایا کہ باجو ڑمیں رہائش پذیر اقلیتی برادری کی کافی خدمات ہیں اور ہم ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ڈومیسائل سے متعلق انکی جو بھی مشکلات ہیں انکو حل کیا جائے گا۔