’میں اپنے مذہب کو ختم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی‘
کائنات علی
‘ہندوں کے لیے دینی سکول نہیں چاہتے ہمارے بچے مذہب سے دو رہے میں بطور ہندو سائنسی علوم اور دیگر پڑھائی میں اچھا ہوں اور تعلیم حاصل کر رہا ہوں لیکن مجھے اپنی مذہبی تعلیمات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ ہمارے صوبے میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے سکول کا نہ ہونا ہے۔‘
یہ کہنا تھا خیبر میڈیکل کالج(کے ایم سی )پشاور میں ایم بی بی ایس کے طالب علم انگ راج کرن کا جس کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور صوبے میں ہندووں کی کسی مذہی سکول کے نہ ہونے سے پریشان ہے۔
انگ راج کرن نے بتایا ،’ بچپن سے ہمیں اپنے سکول میں اسلامیات کی تعلیم دی جاتی رہی ہے تاہم ہمارے مذہب کے لیے حوالے سے ہمیں کچھ بھی نہیں پڑھایا گیا ہے اور نہ اس مد میں حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔‘
2017 کی مردم شماری کے مطابق، خیبرپختونخوا میں ہندو برادری صوبے کی آبادی کا صرف 0.2 فیصد نمائندگی کرتی ہے جس میں کمیونٹی کے تمام ارکان کی تعداد صرف 6,373 ہے۔
لیکن دوسری طرف ہندو سماجی کارکن اور صوبائی اسمبلی میں اپنے برادری کے نمائندہ راوی کمار کا دعویٰ ہے کہ کے پی میں ہندؤں کی کل تعداد تقریباً پچاس ہزار ہے اور شاید اس سے بھی ذیادہ ہو سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں ہندو برادری نے دینی سکولوں کے نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں ان کے بچوں کو ان کے مذہبی زبانوں میں ان کے صحیفے پڑھائے جاسکتے ہو۔
پشاور میں رہنے والے ہندوں کا کہنا ہے کہ پشاور اور کے پی کے دیگر اضلاع میں رہنے والے ہندوؤں کے پاس کوئی مخصوص اسکول نہیں ہے جہاں ان کے بچوں کو ان کے مذاہب کی تعلیم دی جا سکے۔
انگ راج نے بتایا،’ مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام میں ہر طالب علم کو لازمی مضمون کے طور پر ’اسلامیات‘ اور اقلیتی طلبہ اسلامیات کی بجائے سوکس ایجوکیشن کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے آج تک کسی بھی سکول میں ہندو ٹیچر کو نہیں دیکھا جس سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہو۔ انگ راج کرن نے کہا کہ ہندو ہونے کے باوجود بچپن سے ہی اور ہزاروں ہندوں طلبہ کی طرح وہ بھی اسکول اور کالج میں اسلامیات پڑھتے تھے۔
انگ راج کرن نے کہا،’ میں نے اپنے مذہب کی بنیادی علوم والدین سے سیکھے ہیں۔ کے پی میں سینکڑوں ہندو طلباء کو اپنے مذہب کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا جو کہ انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے۔‘
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ سرکاری سکولوں میں غیرمسلموں کے لیے کوٹہ مقرر ہے لیکن زیادہ تر ان کی طرف سے درخواستیں جمع نہیں کی جاتی۔
ڈاکٹر محمد ادریس ضلع مردان میں بطور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ صوبے کے سرکاری سکولوں میں غیر مسلم اساتذہ کیوں تعینات نہیں ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا کہ حکومت کی طرف سے جب بھی کوئی نئی بھرتیوں کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس میں پانچ فیصد اقلیتوں کا کوٹہ ہوتا ہے۔
ادریس نے بتایا،’ پانچ فیصد اقلیتی کوٹہ رکھنے کے باوجود بعض اوقات اقلیتی برادری کی طرف سے کوئی کاغذات جمع نہیں ہوتے تو یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے سکولوں میں مخصوص کوٹہ پھر خالی رہ جاتا ہے۔‘
ہندو سماجی کارکن ہارون سربدیال کے مطابق کے پی میں تقریباً بیس ہزار کے قریب ہندو طلبہ مختلف سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ہندو طلبہ کے سرکاری اعدادوشمار جاننے کے لیے ہم نے کوشش کی لیکن کہیں پر بھی ہمیں نہیں ملے۔
ہارون سربدیال کا کہنا تھا،’ پاکستان میں کسی بھی مذہبی طبقے کے لیے مخصوص سکولوں کا نہ ہونا آئین کے آرٹیکل 20 سے 22 کی خلاف ورزی ہے جو تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔‘
کے پی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے سماجی کارکنوں نے ہندو برادری کے لیے وقف سکولوں کی عدم موجودگی کو ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کے پی میں ہندو مذہب کو شدید خطرہ ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ہندو کارکن ہارون سربدیال نے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا یا قبائلی علاقوں میں ان کے لئے ایک بھی سکول نہیں ہے جہاں ہندو بچے اپنی مذہبی تعلیم حاصل کر سکیں اور ہندی اور سنسکرت پڑھنا سیکھ سکیں۔سنسکرت وہ زبان ہے جن میں ہندوں کی مقدس کتابیں لکھی گئی ہیں۔
ہارون کے مطابق سنسکرت ہندوستان کی ایک قدیم ہند-یورپی زبان ہے جس میں ہندو صحیفے اور کلاسیکی ہندوستانی مہاکاوی نظمیں لکھی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا،’ متعدد درخواستوں اور یاد دہانیوں کے باوجود کے پی میں ہندو کمیونٹی کے لیے دینی مدارس کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔کے پی میں ہندو برادری کی نوجوان نسل اپنے مذہب کے بارے میں معلومات کو بھول رہی ہے کیونکہ ان کے لیے پڑھانے اور سکھانے کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے اور نہ ہی کوئی استاد ہے۔‘
ہارون سربدیال نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبے بھر میں ہر مندر میں کم از کم ایک اسکول قائم کیا جائے تاکہ ہندو مذہب کو ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔
سربدیال نے نشاندہی کی کہ نوشہرہ میں ایک زمانے میں ایک ’پات شالہ‘ تھا جہاں ہندو مذہب کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ بھی بند ہو گیا۔یاد رہے کہ ‘پات شالہ’ ایک روایتی ہندو اسکول کو کہتے ہیں جہاں ہندو بچوں کو اپنا مذہب پڑھایا جاتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ہندو پنڈت اشوک کمار نے اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر وہ ہندومذہب میں دو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں شری رامائن اور بھگوت گیتا شامل ہیں۔
اشوک نے بتایا،’ اگر حکومت اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو انکا یہ مسلہ حل ہو سکتا ہے اور دوسرے مذاہب کی طرح انکے بچے بھی دینی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔‘
پشاور میں سوشل سائنسز کی طالبہ کنول شرما نے ٹی این این کو بتایا کہ دوسروں کے صحیفوں اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بجائے اپنے مذہب کا مطالعہ کرنا ہمارا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کی طرح محب وطن پاکستانی ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تعلیم کے بنیادی اور آئینی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
کنول نے بتایا،’میری خواہش اور خواب ہے کہ اپنے مذہب کے بارے میں آزادی کے ساتھ سیکھ سکو۔ کے پی میں ہندو مت کو مشکل وقت کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کے نوجوان مذہبی تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔‘
کنول شرما نے مزید مطالبہ کیا کہ صوبے بھر کے سکولوں میں ہندو اساتذہ کی بھرتی کی جائے تاکہ ہندو طلباء کو دیگر تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب کا مطالعہ کرنے میں مدد مل سکے۔
کے پی کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ راج کماری نے ٹی این این کو بتایا کہ مردان میں ایسا کوئی سکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں اپنے بچوں کو ہندو مذہب اور اس کے بنیادی عناصر سکھاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو وہی سکھاتی ہوں جو میں نے نوعمری میں اپنے والدین سے سیکھی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ہندو برادری کی نوجوان نسل اپنے بچوں کو ہندو مذہب کے بارے میں نہیں سکھا سکے گی۔
راج کماری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا،’ میں اپنے مذہب کو ختم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی کیونکہ میرے دل میں ہندو مذہب کے لیے بہت پیار ہے۔‘
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مردان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا راوی کمار کا کہنا تھا کہ حکومت مذہبی اقلیتوں اور انکے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔
راوی کمار کا مزید کہنا تھا،’ اگر صوبائی حکومت سکھ برادری کے لئے پشاور میں ڈھائی کروڑ روپے لاگت سے سکول بنا سکتی ہے تو ہندو برادری کے لئے بھی بنا سکتی ہے لیکن ابھی تک ہندو برادری سے اس طرح کا کوئی مطالبہ یا درخواست سامنے نہیں آئی ہے۔‘
روای کمار کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ حکومت نے ہمیشہ سے مذہبی اقلیتوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک محفوظ ماحول دیا ہے اور تمام مذہبی اقلیتوں کو دیگر شہریوں کی طرح مذہبی آزادی دی ہے۔
راوی کمار کا بتانا تھا کہ صوبے کے ہر چرچ اور گردواروں میں سنڈے سکول بنائے گئے ہیں جہاں پر بچے اپنے مذہب کو پڑھتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔
راوی کمار نے کہا کہ وہ اس بات سے بالکل متفق نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا کی ہندو برادری دینی سکول نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مذہب سے دور ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا،’ حکومت کی اولین ترجیح مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اپنے مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں تو یہ ایک پروپیگنڈا ہے کیونکہ یہ واحد ہی ایک حکومت ہے جو اقلیتی برادری کی حقوق کی تحفظ کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔‘