جشن سال نو: یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے
حمیرا علیم
رات بارہ بجتے ہی ٹی وی چینلز پہ مختلف شہروں میں آتش بازی، موسیقی اور ہلڑبازی کے مناظر دکھائے جانے لگے اور نیوز اینکر جوش و خروش سے خبریں دینے لگے کہ کیسے ملک اور دنیا کے مختلف شہروں میں نئے سال کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔
پاکستان کے کسی شہر میں دریائے سندھ میں پھول ڈال کر سال 2021 کو الوداع کہا گیا۔ منچلے نوجوانوں نے بھنگڑے ڈالے۔ خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں وغیرہ وغیرہ۔ دوپہر کو یہ خبر بھی ان گناہگار کانوں نے سنی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سندھ ہائی کورٹ میں کسی مسلمان شہری نے درخواست دی کہ نئے سال کے موقعے پر آتش بازی اور ہلڑ بازی پہ پابندی لگائی جائے۔ تو جج صاحب نے یہ کہہ کر یہ درخواست مسترد کر دی کہ ”ساری دنیا میں نیا سال منایا جاتا ہے تو ہم اس پہ کیسے پابندی عائد کر دیں۔ لوگوں کو انجوائے کرنے دیں۔”
یہ ایک الگ بحث ہے کہ دسمبر کے آخری دن آتش بازی، چراغاں، ناچ گانا، پھول دریا میں بہانا یا سال نو کو خوش آمدید کہنا ایک اسلامی ایونٹ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا سال تو محرم میں تبدیل ہوتا ہے۔ مجھے حیرت تو ان پاکستانیوں پہ ہے جو ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں کہ حکومت نے انہیں کھانے پینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ مگر ٹی وی پہ نیوز رپورٹس تو کچھ اور ہی کہانی دکھا رہی تھیں۔ نہ تو آتش بازی فری میں ہوتی ہے نہ ہی میوزک کنسرٹس۔ نہ تو بائیکس اور کارز پٹرول کے بغیر چلتی ہیں نہ ہی چراغاں بجلی کے بغیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی لائٹس ہوا سے روشن ہوتی ہیں۔ لوگ بارش، برفباری اور ٹھنڈ کی پرواہ کئے بغیر آدھی رات کو سڑکوں پہ موجود تھے۔ سرشام کنسرٹس اس مذہبی جوش وخروش سے دکھائے جا رہا تھے کہ گمان ہوا میں شاید کسی مغربی ملک میں ہوں۔ کنسرٹس اور روڈز پر موجود خواتین کے لباس و حرکات بھی اس خیال کو تقویت دے رہے تھے۔
وہی خواتین جنہیں تبلیغ اسلام یا مسجد میں نماز کی ادائیگی یا تعلیم کیلئے اسکول کالج جانے کی اجازت نہیں دی جاتی آدھی رات کو سرعام بھرے مجمعے میں ناچ گا رہی تھیں، جھوم رہی تھیں مگر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ کیا یہ سب اسلام میں جائز ہے؟ کیا ہمارے میڈیا، کورٹس اور حکومت کا یہ فرض نہیں کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان غیراسلامی و غیرشرعی افعال کا انعقاد نہ ہو؟ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اللہ ہی رحم فرمائے ہم سب پر!