افغان طالب گرتی بندوق تھامنے کے لئے جھکا تو پوری ٹریفک ہی رک گئی
عارف حیات
کابل سے جلال آباد شخصی گاڑی میں سفر کر رہا تھا، ‘ماہی پر’ پہنچ کر دوست نے فارسی کا گانا لگا دیا، دوست خود بھی گنگنا رہا تھا اور جب زیادہ جوش میں آتا تو اسٹیئرنگ سے ایک ہاتھ اُٹھا کر ہوا میں لہرا دیتا تھا۔ دوست کہتا رہا کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو لیکن ‘ماہی پر’ میں موسیقی سننے کا مزہ ہی الگ ہے۔ جب ماہی پر کی اُترائی پر گاڑی ذرا سی ہموار سیدھی سڑک پر آئی تو قریباً آدھ کلومیٹر میں سڑک کی دونوں جانب لمبی داڑھی اور پگڑی والے دو دو بندے نمودار ہوئے۔ ڈر کے مارے دوست نے پوری طاقت سے بریک لگایا اور ٹچ اسکرین پر انگلیاں دبانے لگا۔ مگر آڈیو بند ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، بے چارے نے گاڑی روک کر میوزیک سسٹم کی تمام تار نکال دیں اور اگے چل پڑا۔
جیسے ہی لمبی داڑھی اور پگڑیوں والوں کے پاس پہنچا تو بریکر پر گاڑی کی رفتار مزید آہستہ کر دی تو دونوں نے کہا ”جمات جوڑیگی لگہ لگہ چندہ واچوی” یعنی مسجد کی تعمیر میں تھوڑا تھوڑا چندہ ڈال دیں، ظاہر ہے ہنسی روکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈر کا یہ عالم کہ آگے جا کر دوست نے موبائل سے گانے ڈیلیٹ کر دیئے اور سادہ رنگ ٹون اپنے موبائل پر سیٹ کیا۔ بے چارے شہریوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح اور کیسے طالبان فورس سے ڈیل کریں گے، بس وقتی طور خود کو مسائل سے بچانے کے لئے کوئی نہ کوئی جگاڑ ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں:
طالبان ناشتہ کے علاوہ ہر وقت آئسکریم کھاتے ہیں
"جب افغان طالب نے میرا میڈیا کارڈ دیکھ کر پوچھا ”وٹ ہیری ڈینگ؟”
جب افغانستان سے نکلنے کے لئے دو لڑکیوں نے ایک ساتھ شادی کی آفر کر دی
ایسے ہی ایک چوراہے پر نوجوان طالب ٹریفک کے امور سرانجام دے رہا تھا، ہاتھ میں "سٹاپ اور گو” سگنل ٹارچ تھا۔ بہت ہی مصروف شاہراہ تھی، نوجوان طالب نے ایک ہاتھ پاؤں میں کھجلی کیلئے نیچے کیا تو کندھے سے لٹکی بندوق کو گرنے سے بچانے کے لئے دوسرا ہاتھ ہوا میں بلند کیا جس میں سگنل ٹارچ پکڑا تھا اور سٹاپ کا اشارہ درج تھا، ساری گاڑیاں رک گئیں۔ اب ٹریفک وارڈن طالب خود بھی کنفیوژ ہو گیا کہ ماجرا کیا ہے۔ قریب جا کر ایک گاڑی والے سے پوچھا کہ یہ سب لوگ کیوں کھڑے ہوئے؟ ڈرائیور نے جواب دیا آپ نے رکنے کا اشارہ کیا تو قانون کے مطابق رک گئے، نوجوان طالب نے کہا میں تو پاؤں میں کجھلی کر رہا تھا، کیا کھجلی کا بھی کوئی قانون ہے بھلا۔۔ شاہراہوں پر موٹر سائیکل سوار طالبان دیکھے، جو موٹر سائیکل سیٹ پر کمبل ڈال کر سفر کرتے تھے۔
ایک طالب سے اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دوردراز علاقوں سے کابل آنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور موٹرسائیکل کی سیٹ کو نرم کرنے کے لئے کمبل ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔ راستے میں کھڈوں سے گزرتے وقت جسم کے مختلف حصوں میں درد سے بچنے کا یہی فارمولا ہے۔ طالبان کے قریبی حامیوں سے معلوم ہوا کہ سقوط کے دوران بڑے داڑھیوں اور پگڑیوں والوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ہے، پندرہ اگست کو کابل میں بڑی بڑی پگڑیوں والوں نے نواجوان طالب کے سامنے خود کو امیر صاحب ظاہر کر کے سرکاری گاڑیاں اور سامان ہتھیا لیے ہیں۔ "پانچ بلٹ پروف گاڑیاں بھی اس چکر میں لاپتہ ہوئی ہیں”، ایک نوجوان طالب نے سرگوشی میں یہ بات بتائی۔
کابل میں ایک دوست کے ساتھ محکمہ زراعت جانے کا موقع ملا، وہاں پہنچ کر سربراہ کے دفتر میں داخل ہوئے تو دنگ رہ گیا، عالی شان دفتر اور بالکل نیا فرنیچر رکھا گیا تھا۔ بڑے بڑے نرم صوفے اورخوبصورت شیشے کے میز رکھے تھے۔ سامنے بڑی کرسی پر طالبان حکومت کے نمائندے بیٹھے تھے جن کو میرے دوست نے اپنے مسئلے سے آگاہ کیا، اس صاحب نے کہا کہ کابل میں داخل ہوتے وقت میں سیدھا اسی دفتر میں آیا تھا، "تین دن تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس دفتر میں کون سے امور سنبھالے جاتے ہیں”، مسکرا کر جواب دیا۔
مذکورہ نمائندے نے دفتر میں موجود ماتحت طالبان کو ہدایت دی کہ کل میں یہاں آؤں تو یہ فرنیچر اور کرسیاں ہٹا کر یہاں نرم قالین بچھاؤ اور بڑے تکیے رکھو، ان کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھنے کے باعث کمر میں درد شروع ہوا ہے، خود کو کمزور محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اور دوست نے ایک دوسرے کو دیکھ کر وہاں سے نو دو گیارہ ہونے میں عافیت جانی۔
زیادہ ترمعاملات میں طالبان کو قصور ٹھہرانا زیادتی ہو گی مگر کمیونکیشن گیپ سے زیادہ مسائل جنم لے رہے تھے۔ کابل کے سول سیکرٹریٹ کے گیٹ پر مامور سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ پشاور میں زیاد وقت گزارا ہے اور زراعت میں ڈپلومہ بھی وہاں کے انسٹی ٹیوٹ سے حاصل کیا ہے۔ اسی طرح زیادہ تر نوجوان طالبان سے ملاقات ہوئی جنہوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے کمپیوٹر کورسز، انگلش ڈپلومہ، سیفٹی کورسز، اسکیویٹر اور بڑی گاڑیاں چلانے کے ہنر سیکھے ہیں۔ کسی کسی نے تو یہاں کے سلیبس میں میٹرک، انٹر اور بیچلر تک بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ معلوم ہوئی کہ پہاڑوں، جنگلوں اور سنگلاخ چٹانوں میں پیاز اور آدھی سوکھی روٹی پر گزارہ کرنے والے اور آزادی کے خواب دیکھنے والے نوجوان طالبان کو اب بہترین زندگی، سہولیات اور آمدنی کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔
بیس سال بعد کابل میں داخل ہونے والے طالبان نے بھی یہی بتایا کہ جنگ بربادی ہے، اپنے گھریلو معاملات سیدھا کرنے کے لئے اب جامع آمدنی پلان ترتیب دینا لازمی ہے۔ طالبان بتا رہے تھے کہ بندوق کی جگہ دفتر میں بیٹھنا زیادہ اچھا لگتا ہے اور پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی سرکاری نوکری کی عزت برقرار ہے۔
ان تمام معاملات کو قریب سے دیکھنے بعد یہ کہنا بجا ہو گا کہ طالبان قیادت مزید اپنی فورس کو پیاز، گُڑ اور سوکھی روٹی پر پالنا مشکل ہو گا، اب ان نوجوان طالبان کے ذہنوں میں اپنی زندگی سہولت کے ساتھ گزارنے کی باغی سوچ نے جنم لیا۔ اب ان طالبان کو ماہانہ تنخواہوں کی فکر لگ گئی ہے۔ (جاری ہے)