”ضم شدہ اضلاع میں بجلی کی فراہمی عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنا سکتی ہے”
ضم شدہ اضلاع میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے لوگوں کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں سمیت مجموعی زندگی پر اثرات کے حوالے سے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے مرجڈ ایریاز گورننس پراجیکٹ (ایم اے جی پی ) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے تعاون سے ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ مقررین کے پینل میں سیکرٹری وزارت توانائی (پاور ڈویژن) علی رضا بھٹہ، پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے معروف ماہر معاشیات پروفیسر مائیکل پرائس شامل تھے۔
بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ کے سماجی رویوں پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر مائیکل پرائس نے کہا کہ فرسٹریشن اور سٹریس غربت اور عدم مساوات کا باعث بن سکتے ہیں، جو لوگوں کو بلوں کی ادائیگی کے بارے میں لاپرواہ بنا سکتے ہیں یا بجلی کی چوری میں اضافہ کر سکتے ہیں جس سے حکومت کو محصولات کا نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گھریلو صارفین کی جانب سے کم ادائیگیوں اور بجلی کی چوری میں کمی کیلئے حکومت کو بجلی کی زیادہ مانگ والے صارفین (صنعتوں) کو فراہمی کا معیار بہتر بنا کر محصولات میں اضافہ کرنا چاہیے۔
پروفیسر مائیکل پرائس نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو خراب گرڈز کنکشن کی بحالی و مرمت کے اخراجات سے ہٹ کر نئے گرڈ کنکشن کی تنصیب کے براہ راست اخراجات کی طرف دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے سفارش کی کہ رسمی گرڈز میں توسیع یا اپ گریڈز شروع کرنے کے بجائے نئے کنکشنز کیلئے سولر منی گرڈز اور موجودہ کنکشنز کے لیے سولر بیک اسٹاپ پر غور کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کیلئے شمسی توانائی کی بطور متبادل قبولیت کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، کیونکہ ان اضلاع میں لوگوں کی آبادی شمسی توانائی کا انتخاب کر رہی ہے جہاں 93 فیصد گھرانے ایک یا زیادہ سولر پینلز رکھتے ہیں اور پچھلے پانچ سالوں میں دیہاتوں میں بجلی کی آف گرڈ کوریج میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم مسلسل لوڈ شیڈنگ گھریلو معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور روزانہ اوسطاً 3 سے 4 گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ندیم الحق، وائس چانسلر پائیڈ، نے حکومت کی جانب سے منصوبے کی فزیبلٹی اور ان علاقوں میں بجلی کی محدود فراہمی اور رسائی کو بڑھانے پر تبصرہ کیا اور کہا کہ ان علاقوں میں لوگوں کی اپنی ضرورت کے مطابق بجلی کے استعمال اور ادائیگی کیلئے پری پیڈ میٹرز متعارف کرائے جائیں۔
وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سیکرٹری توانائی (پاور ڈویژن)، حکومت پاکستان علی رضا بھٹہ نے کہا کہ ضم شدہ علاقوں کی صورتحال ملک کے دوسرے حصوں سے مختلف ہے، اس وقت وفاقی حکومت ان علاقوں کے بجلی کے اخراجات کی ادائیگی کر رہی ہے لیکن یہ طویل المدتی حل نہیں ہے، ضم شدہ اضلاع میں بجلی کی فراہمی کیلئے آف گرڈ حل جیسے سولر منی گرڈ سسٹم کی تنصیب یا چھوٹے پن بجلی گھروں کی تعمیر میں سرمایہ کاری لازم ہے، ساتھ ہی ہمیں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔