خیبر پختونخوا کا وہ ضلع جہاں انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں
عثمان دانش
خیبر پختونخوا کے جنوب میں واقع صوبے کے پانچویں بڑے شہر ڈی آئی خان سے کچھ فاصلے پر واقع ضلع ٹانک کے عوام کی قسمت 21ویں صدی میں بھی جاگ نہ سکی، حکومتی عدم توجہی کے باعث ٹانک (جس کو مقامی زبان میں لوگ ٹک کہتے ہیں) کے عوام آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ٹانک ڈی آئی خان ڈویژن کا اہم ضلع ہے لیکن آج بھی اس شہر کے عوام کو پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں اور لوگ اپنی ضرورت کے لئے تالاب کا پانی استعمال کرتے ہیں اور اسی تالاب سے جانور بھی پانی پیتے ہیں۔
ٹانک سے تعلق رکھنے والے شفیق کنڈی نے بتایا کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو انگریز دور سے چلا آ رہا ہے لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، ”ٹانک کے لوگ بارشوں کے رحم کرم پر ہیں، بارشیں ہوں گی تو پانی تالابوں میں آئے گا اور ہم اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کریں گے، جو پانی لوگ استعمال کرتے ہیں اس کے لئے پائپ بھی نہیں ہے، کچے نالوں میں پانی آتا ہے، اتواری کلے میں چار تالاب بنے ہیں جن میں پانی جمع ہوتا ہے پھر ان کچے تالابوں سے پانی انگریز دور کی پائپ لائن ذریعے تین بڑی ٹینکیوں میں، جو صابر بازار، سول لائن اور ریلوے سٹیشن میں لگی ہیں، پانی جمع ہوتا ہے، پھر ان ٹینکیوں سے پائپ کے ذریعے گندے نالوں کے اندر پانی جاتا ہے جو ٹانک سٹی کو مہیا کیا جاتا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ ٹانک سٹی کے ساتھ ہی قریبی 15 سے 16 گاؤں کے لوگ گھریلو ضرویات کے ساتھ ساتھ پینے کے لئے بھی وہی پانی استعمال کرتے ہیں جو جانور بھی استعمال کرتے ہیں، ”انگریز دور کی لگی پائپس ہیں جو اس وقت زنگ آلود ہو گئی ہیں، قیام پاکستان سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں ان میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ان پائپوں کو تبدیل کرے۔”
تالابوں کو جو پانی کچے نالوں کے ذریعے جاتا ہے اس کا پراسس بھی بڑا دلچسپ ہے۔ اسی مقام پر ایک جال لگا ہے جس کو فلٹر کہتے ہیں, پانی میں کوئی گندی چیز ہو یا لکڑی وغیرہ تو اس جال میں پھنس جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جس طرح بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے لئے فلٹر لگے ہوتے ہیں اسی طرح ٹانک میں پانی کو صاف کرنے کے لئے نالے پر لگے اس جال سے فلٹر کا کام لیا جاتا ہے۔
شفیق کنڈی نے بتایا کہ تالاب کا پانی بھی پورے ٹانک کے باسیوں کو میسر نہیں ہے, ”بارش کا یہ پانی بھی بمشکل 60 سے 65 فیصد آبادی کو دستیاب ہوتا ہے, 35 فیصد آبادی اس سے بھی محروم ہے، ٹانک شہر میں 32 ٹیوب ویل ہیں لیکن ان میں بمشکل 10 کام کر رہے ہیں جبکہ باقی بند پڑے ہیں، ٹیوب ویل آپریٹر بھی تعینات کئے گئے ہیں لیکن ڈیوٹی کوئی نہیں کرتا، ٹیوب ویل کے لئے ٹرانسفرمر اور مشینری بھی چوری کی نذر ہو گئے ہیں، جو ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں ان کا پانی بھی بااثر لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔”
ٹانک سیاسی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے اور اسے جمیعت علماء اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ٹانک کے لوگ مولانا فضل الرحمن کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا نام جس امیدوار کے بینر پر ہوتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ این اے 37 ٹانک سے 2018 کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن نے اپنے بیٹے مولانا اسعد محمود کو ٹکٹ تھمایا اور وہی کامیاب قرار پائے، اس سے پہلے اسی حلقے سے 2002 سے 2007 اور 2008 سے 2013 تک مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن ممبر قومی اسمبلی رہے، 2008 سے 2010 تک مولانا عطاءالرحمن وفاقی وزیر سیاحت بھی رہ چکے ہیں۔
ٹانک سے تعلق رکھنے والے صحافی عصمت شاہ گروکی نے بتایا کہ ڈی آئی خان اور ٹانک سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ملکی سیاست میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں لیکن اپنے حلقے کی عوام کے مسائل شاید ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2002 سے 2008 تک متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی لیکن اس وقت بھی ٹانک کے عوام پانی کی نعمت سے محروم رہے، 2008 سے 2013 تک عوامی نیشنل پارٹی، جو کہ پشتونوں کی پارٹی ہے، صوبے میں برسراقتدار رہی لیکن خود کو پختونوں کے عملبردار کہلوانے والوں کی حکومت میں بھی ٹانک کے عوام پانی کو ترستے رہے، 2013 سے اب تک برسراقتدار انصاف والوں کی حکومت نے ٹانک کے عوام کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا اور پانی کا مسئلہ وہیں کہ وہیں ہے۔
عصمت شاہ نے بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے، ٹانک بازار سے تقریباً 4 کلومیٹر کے فاصلے پر پرائیویٹ ٹیوب ویل لگے ہیں، ان پرائیویٹ ٹیوب ویل سے پانی ٹینکرز کے ذریعے بازار لایا جاتا ہے اور مہنگے داموں لوگوں کو دیا جاتا ہے، حکومت اگر خود ٹیوب ویل لگائے تو پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن سیاسی رہنمائ یہ مسئلہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے، جب بھی کوئی رہنمائ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات شروع کرتا ہے تو دوسری پارٹی کے سیاسی رہنمائ اس میں مداخلت شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔
ٹانک کے عوام نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے۔ جے یو آئی کے موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمن کو پاکستان میں سیاست کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی ٹانک کے عوام کیلئے، جو ان کے نام پر ووٹ دیتے ہیں، پانی کا مسئلہ حل نہ کرا سکے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 2003 سے 2007 تک مشرف دور میں اپوزیشن لیڈر رہے، 2008 سے 2013 پیپلز پارٹی اور 2013 سے 2018 مسلم لیگ ن حکومت کا حصہ رہے اور چیئرمین کمشیر کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے، 2002 سے 2008 تک خیبر پختونخوا کے وزیراعلی بھی جے یوآئی کے اکرم خان درانی رہے جن کا تعلق بھی بنوں سے ہے لیکن اس دور میں بھی وہاں کے عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
وزیراعلی محمود خان نے بھی فروری 2021 میں جنوبی اضلاع کا دورہ کیا، 2 فروری کو بنوں ٹاؤن ہال میں وزیراعلی محمود خان نے جنوبی اضلاع کے مسائل حل کرنے کے لئے بڑے اعلانات کئے لیکن ان پر بھی عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔