”میری ماں کے پاس بیٹھا وہ داڑھی والا نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ایک جن تھا”
بشری محسود
”پہلے تو میں ان چیزوں پر یقین بھی نہیں رکھتی تھی۔ مجھے سب خیالی باتیں لگتی تھیں۔ دیو اور پریوں کی طرح میں جنات کو بھی محض افسانوی کردار سمجھتی تھی لیکن جوانی میں ہی جنات نے مجھ پر اپنا آپ ظاہر کیا۔” یہ کہنا ہے اسمارہ کا جس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اسمارہ نے مزید بتایا، ”جب میں اور میری والدہ کسی رشتہ دار کے ہاں مہمان بن کر گئے تھے پشاور، وہ ہندوؤں کے زمانے کا گھر تھا جہاں کافی عرصے سے بند پڑے ایک کمرے کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ یہ بہت بھاری کمرہ ہے، یہاں پر جنات ہیں اس لیے ہم نے اس کو بند رکھا ہے لیکن میں اس میں کچرا وغیرہ لکڑیاں بے خیالی میں ڈال دیا کرتی تھی۔ جوانی کی عمر تھی اور میں ان کے گھر والوں پہ ہنستی تھی کہ تم لوگ ویسے ہی ڈرتے ہو اس کمرے سے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا مجھے ایک نوجوان لڑکا داڑھی والا اپنی والدہ کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ مجھے لگا کہ وہ میرے ننھیال کا کوئی فرد ہے لیکن کچھ ہی وقت بعد اس نوجوان کا جسم غائب ہو گیا صرف اس کی گردن اور سر ہی نظر آنے لگے اور وہ میری طرف مسلسل دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ میں نے اپنا منہ رضائی میں چھپا لیا۔ اس کے بعد کئی بار وہ مجھے پشاور اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی نظر آنے لگا۔ ایک دن ایسا ہوا میری ماں میرے کمرے میں آئی اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگی اور مجھے میری ماں کے چہرے کی جگہ اس نوجوان کا چہرہ نظر آنے لگا۔
میں گھبرا کر اٹھ گئی اور کمرے سے نکل آئی۔ امی پیچھے آوازیں دینے لگی اور جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے پیچھے آ رہا تھا، میں بھاگنے لگی اور زور زور سے چلانے لگی کہ وہ میرے پیچھے آ رہا ہے۔ میں گھر کے مین گیٹ سے نکلنے ہی والی تھی کہ میرے گھر والوں نے مجھے پکڑ لیا کہ کہاں جا رہی ہو، میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ جب ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ وہ آدمی نہیں بلکہ میری ماں تھی جو مجھے پکڑنے کے لئے میرے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ اور پھر وہ اتنا نظر آنے لگا کہ میں اس کی موجودگی کو محسوس کرنے لگی۔ دو تین سال تک وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے نظر آتا رہا۔ اس کے بعد میری شادی ہو گئی، میرے تین بچے پیدا ہوئے، تینوں بچے پیدائش کے تیسرے دن کالے نیلے ہو کر مر گئے۔ جب ہم نے معلومات کرائیں تو معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی نے کالا جادو کیا تھا، میں نے اس کی طرف بالکل دھیان ہی نہیں دیا۔
اس کے بعد میری بچہ دانی میں رسولی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے میری بچہ دانی کو ہٹا دیا گیا، غلطی سے میری آنتوں پر کٹ لگا، میرے کئی ایکسیڈنٹ بھی ہوئے۔ پھر میں نے اپنے بچوں کی خاطر جو لے پالک ہیں اپنے ساس کے کہنے پر اس کالے جادو کا توڑ کرایا کیونکہ مجھے سب علماء بھی یہی کہتے تھے کہ اس کالے جادو کا مقصد یہی تھا کہ آپ گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤ یا خود کو ختم کر دو۔
پھر میں نے اس کے متعلق جاننا شروع کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ جنات کی مختلف اقسام ہیں چو ہوا، پانی، زمین غرض ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ لوگ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک موٹا سا جن جنات کا بادشاہ ہے، کالا سا جو کے اکثر خواتین اور کئی مردوں پر ظاہر ہوتا ہے اور وہ ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور زنا کرتا ہے۔ یہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مولوی کی بیوی پر آتا تھا، اس کے شوہر کو بھی معلوم تھا اور وہ یہ کہتی تھی کہ یہ مجھے پاک نہیں رہنے دیتا کبھی بھی اور اس کے علاوہ بھی کئی خواتین اس سے متاثر ہیں۔ یہ ان کو بہت ذلیل کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عامل بھی اس سے چھٹکارا نہیں دلا سکتے۔”
جنات ہیں کیا، ان کی اقسام کیا ہیں، یہ کیا کھاتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، اس بارے میں قرآن میں مختلف آیات اور مختلف احادیث میں واضح کیا گیا ہے۔
مفتی بشیر خلوزئی کا کہنا ہے کہ جنات کا مطلب ہے وہ چیز جو نظر نہ آئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جنات مادہ نہیں اور اس کا تعلق سائنس سے نہیں ہے بلکہ عام مشاہدے سے ہے۔ مختلف احادیث اور واقعات میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی عرب میں جنات کا تذکرہ اور وجود موجود تھا اور جو قافلہ روانہ ہوتا تھا تو اس کے جو سردار ہوتے تھے وہ ان سے پناہ مانگتے تھے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں سورہ جن اس کا مستقل ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ دیوہیکل سلیمانی میں بتایا گیا ہے کہ جنات کو تعمیرات وغیرہ کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس طرح قرآن اور حدیث میں ان کے مختلف واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ایک آیت میں کہا گیا ہے سورہ الذرایات کی ایک آیت ہے، مفہوم: میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا کیا ہے اپنی عبادت کے لیے۔ ایک دوسری جگہ سورہ رحمن کی آیت ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں: (مفہوم) کہ میں نے انسانوں کو مٹی اور جنات کو آگ سے پیدا کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات کی اصلیت یہی ہے کہ ان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے لہذا اس مخلوق کا مادہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے انسان کو نظر نہیں آتی ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ کیا جنات انسانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں انہیں تکلیف دے سکتے ہیں یا ان پر حاوی ہو سکتے ہیں تو اس کے بارے میں بھی ایک واقعہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے، معسود رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا: ہر ایک انسان کو ایک کریم اور ہم نشین عطا کیا گیا ہے جنات میں سے تو معسود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کو بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے بھی عطا کیا گیا ہے لیکن میں نے اس پر قابو پا لیا ہے اور وہ مسلمان ہو چکا ہے۔ اس طرح بے شمار احادیث موجود ہے جس میں جنات کے وجود کا ذکر ہوا ہے۔
جنات کی قوت اور طاقت بہت زیادہ ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتے ہیں۔ سلیمان علیہ سلام کی جو تعمیرات ہیں اور ان کا جو تخت لایا جا رہا تھا اس کو لانے اور لے جانے کی ذمہ داری بھی جنات کی تھی۔
جنات کی خوراک صاف ہڈی ہے۔ جس پر بسم اللہ پڑھی گئی ہو وہ مسلمان جنات کے اور جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو وہ غیرمسلم جنات کی خوراک ہے۔
نصیبین ایک علاقہ ہے، وہاں سے ایک وفد آیا تھا جنات کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، تو خوراک کا تذکرہ ہوا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس پر بسم اللہ پڑھی جائے گی وہ مسلم جنات اور جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی جائے گی غیرمسلم جنات کی خوراک ہو گی، اس کے علاوہ جانوروں کے جو فضلہ جات ہیں وہ بھی ان کی خوراک میں شامل ہیں۔
ان کی رہائش صحرا، ویران کھنڈر اور مکانات اور گندگی والے مقامات ہیں اس لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی بیت الخلا میں داخل ہوں تو مندرجہ ذیل دعا پڑھنی چاہیے:
اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث۔ اس سے ثابت ہوتا ہے یہ ناپاک جگہوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں، ان کے جانور ہیں یا نہیں، تو بالکل ان کے جانور ہوتے ہیں جو مختلف شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔
کیا جنات انسانوں پر قابو پا سکتے ہیں؟ ہاں! بالکل پا سکتے ہیں کیوں کہ ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ سودخور کو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا جیسے کسی پر جن کا سایہ ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات انسانوں پر قابو پا سکتے ہیں۔
جنات انسانوں کو تکلیف اور اذیت پہنچا سکتے ہیں اور مختلف احادیث سے ثابت بھی ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی جو ایک غزوے پر گئے تھے، جب واپس آئے تو ان کی بیوی باہر کھڑی تھی اور اندر سانپ تھا، شوہر نے اس سانپ کو مار دیا، وہ صحابی واپس ہوئے تو ان کی موقت واقع ہوئی۔ اس سے لگتا ہے کہ جنات نے انہیں نقصان پہنچایا ہو گا۔
اور آخر میں یہ، کہ کیا انسان ان کا کوئی علاج کر سکتا ہے تو ہاں! بالکل انسان قرآن کی آخری سورتیں اور مسنون دعاؤں کے ذریعے ان سے خود کو اور اپنے گھر بار کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
باقی ان کی تعداد کتنی ہے تو ایک تاریخی کتاب میں، جس میں حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، لکھا ہے کہ انسانوں کی نسبت جنات 80 فیصد زیادہ ہیں، قرآن اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جنات بھی مخلوق ہیں اور موجود ہیں۔