”ہر خاتون صحافی جنسی، نفسیاتی یا ڈیجیٹل ہراسانی کا شکار رہی ہے”
نسرین جبین
”میری صحت خراب ہو گئی، بال گرنے لگ گئے، رنگت زرد رہنے لگی اور نفسیاتی مسائل اتنے بڑھ گئے کہ مجھے نہ صرف ملازمت بلکہ شہر بھی چھوڑنا پڑ گیا اور میں پشاور سے اسلام آباد منتقل ہو گئی، وہاں دوسری ملازمت کر لی اور پھر 4 سال بعد پشاور واپس آئی تو دوبارہ دوسرے چینل میں شمولیت اختیار کی کیونکہ صحافت میرا جنون ہے۔ لیکن پھر صحافت چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کر لی کیونکہ صحافیوں کو کوئی سیفٹی اور سیکورٹی حاصل نہیں ہے۔” یہ کہنا تھا خاتون صحافی رفعت شاہ کا جو کہ صحافت کے شعبے سے 8 سال منسلک رہنے کے بعد چھوڑ کر محکمہ صحت میں ملازم ہو گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس ٹی وی چینل کے ساتھ میں کام کرتی تھیں اس کا اسٹاف بھی مجھے ہراساں کرتا رہا اور میرے نام کسی نہ کسی صحافی کے ساتھ جوڑ کر میری کردارکشی کرتا رہا جس سے ذہنی کوفت کا شکار رہی، ہمارے دفتر میں کوئی ہراسانی سے متعلق کمیٹی نہ تھی، ہوتی بھی تو کیا فرق پڑنا تھا جبکہ فیلڈ میں کام کرنے سے متعلق اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے ایک سرکاری محکمے کے ڈائریکٹر کے دفتر گئی اور اپنی خبر کی تصدیق کے لئے دستاویزات کا مطالبہ کیا، مجھے میری خبر سے متعلق دستاویزات مل گئیں لیکن مزید دستاویزات کے حصول کے لئے میں نے اپنا وٹس ایپ نمبر وہاں چھوڑ دیا، ”اچھی بات یہ ہوئی کہ مکمل معلومات اور دستاوزات کے حصول کے بعد میری نیوز سٹوری بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہوئی اور مجھے پذیرائی ملی لیکن وہ سٹوری میرے لئے دردسر بن گئی، ڈائریکٹر صاحب نے میرے وٹس ایپ پر مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا، ان کے پیغامات بھیجنے کا سلسلہ گڈ مارننگ سے شروع ہوتا اور گڈ نائٹ تک جاری رہتا، کبھی میرے بالوں کی تعریف کی جاتی تو کبھی میری رنگت کی اور کبھی میرے کام کے حوالے سے تعریفوں کے غیرضروری پل باندھے جاتے، ہراساں کرنے کے اس رویے سے میں بہت ذہنی اور نفسیاتی طور پر پریشان رہی جس سے میرا کام متاثر ہوا اور ذہنی کوفت کے باعث میرا کام غلط ہوتا چلا گیا جس سے آفس سے بھی مجھے شکایات ملنے لگیں اور میری ذاتی زندگی متاثر ہوئی۔” رفعت نے بتایا کہ انہوں نے ان ڈائریکٹر صاحب کو چپ تو کروا دیا لیکن میں کافی عرصہ تک اسی ذہنی اور نفسیاتی کوفت کا شکار رہی۔
رفعت کی طرح پشاور میں درجنوں خواتین صحافیوں کو ہراسانی کی مختلف اقسام کا سامنا ہے، صحافی خواتین کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ انہیں اپنی ڈی پی پر اپنی تصویر بھی لگانا پڑتی ہے اور دستاویزات اور معلومات کے حصول کے لئے اپنا نمبر بھی دینا پڑتا ہے۔ خواتین صحافیوں کو نہ صرف فیلڈ میں کام کے دوران ہراسمنٹ کا سامنا رہتا ہے بلکہ اپنے نیوز روم کے اندر اور اکثر اوقات افسران بالا بھی انہیں ہراساں کرتے ہیں۔
پشاور میں بھی صحافیوں کے لباس، چال ڈھال، میک اپ کرنے یا نہ کرنے، گفتگو کے انداز، فون پر بات کرنے، پیشہ ورانہ یا تربیتی ٹورز پر جانے جیسے معاملات کو زیر بحث لا کر انہیں ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔
پشاور میں کم و بیش 35 صحافی خواتین مختلف اداروں سے وابستہ ہیں جو پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ خواتین صحافی پرنٹ، الیکٹرانک اور آن لائن صحافت سے منسلک ہیں جن میں 22 پشاور پریس کلب کی رکن اور خیبر یونین آف جنرنلسٹس کی 26 ممبرز ہیں جبکہ یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ صحافت سے ہر سال تقریباً 15 سے 20 خواتین صحافت کی سند لے کر اس انڈسٹری کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہونے کے لئے تیاری کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے ذریعے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک خواتین صحافیوں کی تعداد 15 کے قریب ہے۔
آر ٹی آئی سے لی گئی معلومات کے مطابق پشاور پریس کلب میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کا وجود ہی نہیں ہے جبکہ گزشتہ ایک سال میں صرف 1 خاتون صحافی نے ہراسانی کے حوالے سے زبانی شکایت کی ہے جو کہ اس کے اپنے دفتر کے اندر سے اسے محسوس ہوئی۔ خاتون صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس خاتون صحافی نے تحریری درخواست نہیں دی کہ جس پر کارروائی کی جا سکے۔ علاوہ ازیں خواتین صحافیوں کی طرف سے صوبائی محتسب کے متعلقہ محکمے میں شکایات کے اندراج کی شرح ’’زیرو‘‘ ہے۔
اس حوالے سے صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی رخشندہ ناز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ خواتین صحافی سٹیگماٹائز ہونے سے بچنے کے لئے شکایات درج نہیں کراتیں ورنہ اس قسم کے واقعات زبانی کلامی میرے ساتھ بھی اور او آپس میں بھی زیر بحث لاتی رہتی ہیں۔ خواتین صحافی بھی خواتین ہیں اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے ان کے ساتھ بھی اس طرح کے مسائل ہوتےہیں لیکن ان کا اپنا ایک نام، ایک وقار اور شخصیت ہوتی ہے اس لیے وہ زیادہ تر خود ہی ہراسانی کا معاملہ نمٹا لیتی ہیں یا پھر چپ ہو جاتی ہیں۔
شعبہ صحافت سے 30 سال سے وابستہ خاتون صحافی اور آج ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ ہرخاتون صحافی ہراسانی کا شکار رہی ہے، ہراسمنٹ کی اقسام مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ہراسانی سے کوئی بچ نہیں پایا جبکہ خوبصورت خدوخال، سفید رنگت، اسٹائلش اور نووارد خواتین صحافی ہراسانی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں اور یہ ہراسانی نہ صرف فیلڈ میں بلکہ اپنے آفس کے ساتھی بھی کرتے ہیں۔ ”ہراسانی کا تعلق عمر اور شکل و صورت سے بھی ہے، کم عمر خواتین صحافی زیادہ تر خاموش رہ جاتی ہیں، ان کو یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی بات گھر تک پہنچ گئی تو بدنامی ہو گی اور نوکری کے ساتھ ساتھ عزت بھی جائے گی، شادی شدہ صحافی خواتین نسبتاً پراعتماد ہوتی ہیں، پروفیشنل جیلیسی بھی ہراسمنٹ کا سبب بنتی ہے، ہراسمنٹ کسی بھی طرح کی ہو باصلاحیت خواتین کے کام کو متاثر ضرور کرتی ہے۔”
خیبر یونین آف جرنلسٹس کی سابق جنرل سیکرٹری انیلا شاہین کا کہنا ہے کہ میں نے یہ سیکھ لیا تھا کہ کوئی ہراساں کرے یا ایک گالی دے تو اسے دو گالیاں دو پھر وہ ہراساں نہیں کرے گا اور ڈر کر ہی سہی آپ کی عزت ضرور کرے گا لیکن اگر چپ ہوئے تو پھر بس برداشت کرتی جآ یا پھر کمپرومائز کر لو لیکن یہ بات مجھے اس وقت سمجھ آئی کہ جب میں ہراسانی کا شکار ہوتے ہوتے دو اخبارات میں ملازمتیں چھوڑ چکی تھی، ”مقامی اخبار میں میرا باس مجھے کہتا کہ چلو اسلام آباد چلتے ہیں، مری چلتے ہیں، میں اس کی باتیں مان نہیں سکتی تھی اور میرے پر نفسیاتی دباو بڑھتا جا رہا تھا تو میں نے ملازمت ہی چھوڑ دی، اسی طرح دوسرے اخبار میں ملازمت کی، میں نوجوان اور خوش شکل تھی، وہاں بھی ایسا ہی ہوا، وہاں بھی میں اکیلی خاتون تھی اور میرا باس مجھے ہراساں کرتا، بہانے بہانے سے مجھے بلاتا، اپنے کمرے میں بٹھاتا اور غیرضروری باتیں کرتا لیکن ھم خواتین کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے، میں سمجھ جاتی کہ معاملہ کیا ہے، میں نظر انداز کرتی رہی اور برداشت کرتی رہی لیکن کچھ عرصہ بعد میری برداشت ختم ہو گئی تو میں نے ملازمت چھوڑ دی لیکن اس کے بعد سے میں اس طرح بولڈ اور منہ پھٹ ہو گئی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی تھی، اب کوئی ہراساں نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ خواتین صحافی جنسی، نفسیاتی، ڈیجیٹل یعنی ہر طرح کی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں، ملازمت کے آغاز میں اس کی شرح زیادہ ہوتی ہے تاہم خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے والوں میں 90 فیصد ان کے اپنے اسٹاف ممبران ہوتے ہیں جبکہ ہراسگی میں ذہنی اور نفسیاتی ہراسمنٹ کی شرح جنسی ہراسمنٹ کی نسبت زیادہ ہے۔
پشاور پریس کلب کے صدر محمد ریاض نے بتایا کہ ہمارے یہاں کچھ ٹیبوز ایسے ہیں کہ خواتین اگر شکایت کرتی ہیں تو انہی کو ٹارگٹ بنا لیا جاتا ہے اس لیے خواتین صحافی بھی سماجی رویوں کے باعث اپنی شکایت لے کر نہیں آتیں اور سمجھوتہ کر کے برداشت کرتی چلی جاتیں ہیں یا پھر ہراسمنٹ کی باتوں کو نظرانداز کر لیتی ہیں، ”خواتین صحافی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور انہیں بھی خواتین ہونے کے ناطے ان تمام مسائل کا سامنا ہے جو دسری خواتین کو ہوتا ہے۔”
انھوں نے بتایا کہ میرے گزشتہ ٹینور میں ایک لڑکی نے شکایت کی تھی کہ پریس کلب کا اسٹاف ممبر اسے پیغامات بھیجتا ہے، میں نے تحقیقات کرائیں تو اس لڑکے کا قصور نکلا جس پر میں نے اسے نوکری سے فارغ کروا دیا تاکہ پریس کلب میں کسی کو کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نا کرنا پڑے، ”آج تک کسی خاتون صحافی کی ہراسانی سے متعلق کوئی شکایت نہیں ملی، اس کی وجہ یہ نہیں ہو سکتی کہ انہیں ہراساں نا کیا گیا ہو بلکہ سماجی رویے انہیں اس اقدام سے روکتے ہیں۔