عوام کی آواز

نوشہرہ : میڈیا کارڈز نہ رکھنے والوں کو انٹرویوز نا دی جائے، سرکاری ملازمین کو احکامات

سید ندیم مشوانی

نوشہرہ میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے محکمہ اطلاعات کی جاری کردہ میڈیا کارڈ نہ رکھنے والے صحافیوں پر افسران سے انٹرویو لینے پر پابندی عائد کی گئی ہے جیسے صحافیوں کے نمائندہ تنظیموں نے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ میڈیا اداروں سے منسلک صحافیوں کا بنیادی حق ہے۔

24 ستمبر کو ضلع نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری شدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ محکمہ اطلاعات کی ایکریڈیٹیشن کارڈ نہ رکھنے والا کوئی بھی صحافی یا سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سرکاری افسران سے انٹرویو نہیں لے سکے گا۔

اعلامیہ میں محکمہ اطلاعات کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی کارڈ نہ رکھنے والے صحافی کسی بھی پولیس اور سرکاری افسر سے انٹرویو نہیں لے سکتا اور نہ ہی وہ سرکاری اجلاسوں یا پریس بریفنگ میں بیٹھ سکتا ہے۔

خیبرپختونخوا کے صحافیوں نے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کو غیرقانونی اور غیرآئینی قراردیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت معلومات تک رسائی ہر صحافی اور شہری کا بنیادی حق ہے۔

سینئر صحافی شمیم شاہد نے اعلامیے کے ذریعے صحافیوں کو معلومات تک رسائی نہ دینے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے ساتھ میڈیا کے رجسٹرڈ پرنٹ اور الیکٹرانک اداروں سے منسلک صحافیوں کا حق ہے کہ انہیں معلومات تک رسائی حاصل ہو۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے شمیم شاہد نے بتایا کہ سوشل میڈیا پیجز نے صحافیوں کیلئے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں جس کے لئے ایسے قوانین بنانے چاہئے تاکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم نہ ہو۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل-19 کے مطابق معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسکے تحت پریس کی آزادی بھی قانون کے تحت مناسب اور واجب پابندیوں سے مشروط ہے۔

شمیم شاہد کہتے ہیں ” ایک ہوتے ہیں سرکاری اجلاس اور دوسرا سرکاری تقاریب۔ اگر سرکاری اجلاس میں خفیہ باتیں ہو رہی ہو تو وہاں پر بغیر کسی دعوت کے کسی بھی صحافی کو شرکت نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر سرکاری تقریب ہو تو رجسٹرڈ ادارے کا صحافی مجاز ہے کہ وہاں شرکت کرے”۔

خیبرپختونخوا میں صحافیوں کی حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والی تنظیم خیبریونین آف جرنلسٹ کے سابق عہدیدار اور پشاور پریس کلب کے سابق جنرل سیکرٹری محمود جان بابر نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ بات واضح ہے کہ صوبے کے اضلاع میں کام کرنے والے صحافی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔

محمود جان بابر کہتے ہیں کہ ان صحافیوں کو میڈیا اداروں کے مالکان سے صرف پریس کارڈز نہیں بلکہ دیگر مراعات بھی نہیں ملتے اور اُن سے ہنگامی نیوز (بریکنگ نیوز) کی توقع کی جاتی ہے، انکے مطابق جب وہ کسی جگہ پر اپنی سٹوری فائل کرنے جاتے ہیں تو وہاں پر انتظامیہ کی طرف سے مشکلات کھڑے کر دئیے جاتے ہیں۔

محمود جان کے بقول”حکومت نے اصل صحافیوں کے مسائل کیلئے کوئی اقدامات اُٹھائے ہیں اور نہ اضلاع کے صحافیوں کی ایکریڈیٹیشن کارڈ کا مسئلہ حل ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ میڈیا ادارے خود بھی صحافیوں کو پریس کارڈ جاری نہیں کرتے اور اُن سے نیوز سٹوری لینے پر اسرار کرتے ہیں تو ایسے میں صحافی میڈیا اور سرکاری اداروں کے درمیان کچلا جاتا ہے”۔

انہوں نے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے حوالے سے بتایا "انتظامیہ سمیت سب کو معلوم ہے کہ صحافت کی آڑ میں کون کیا  کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اب صحافت سے بے خبر چند لوگ اپنی سوشل میڈیا کے نام سے اصل صحافت اور صحافیوں کو بدنام کر رہے ہیں، اب یہ سلسلہ رُکنا چاہئے”

محمود جان کا کہنا ہے کہ جب سرکاری اداروں کے سربراہان خود سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی تشہیر کرتے ہیں تو اُس تشہیر سے انہیں خوشی ملتی ہے لیکن جب وہاں پر اداروں کے سربراہان کو کوئی مسئلہ درپیش ہوجائے تو صحافیوں پر پابندیاں لگانے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے غیر سرکاری عالمی تنظیم ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ نے سال 2021 کی جاری کردہ رپورٹ میں صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی کی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں صحافیوں کیلئے پاکستان کو بدستور تشویشناک ملک قرار دیا ہے اور امسال پاکستان کو رائے کی اظہار کی آزادی کے حوالے سے 139 سے 145 نمبر پر ڈالا گیا ہے۔

‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پاکستان میں سنسر شپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں ابلاغ عامہ کے اداروں پر بعض طاقتور اداروں کی طرف سے دباو ڈالنے کے مختلف طریقے استعمال کیے گئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button