جرائمکالم

حماس اسرائیل جنگ میں کن جنگی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہیں؟

 

 آفتاب مہمند

7 اکتوبر 2023 کو یہ صبح ہی کا وقت تھا جب پاکستانی ٹی وی چینلز پر اچانک ایک خبر نشر ہونا شروع ہو گئی کہ فلسطین کی مزاحمت کار تنظیم "حماس” نے اسرائیل پر زمینی، فضائی اور سمندری اطراف سے ایک بڑا حملہ کر دیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں حکمران حماس نے 7 اکتوبر یعنی ہفتے کی صبح اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملے میں 5 ہزار تک راکٹ داغے۔ حماس کے کئی جنگجو اسرائیلی سرحد میں بھی داخل ہوگئے جن میں پیرا شوٹ کے ذریعے سرحد پار کرنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔ اسی ہی روز اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ ہیچٹ نے ایک بڑے حملے کی تصدیق کی تھی۔

تحریک کے عسکری ونگ "عزالدین القسام بریگیڈ” کے کمانڈر محمد الدیف نے حملے کے پہلے روز یہ اعلان کیا تھا کہ غزہ پٹی کے آس پاس کے اسرائیلی قصبوں اور تہوار منانے والوں پر حملے کئے ہیں۔ حماس نے اسرائیل پر اس اچانک حملے کو "آپریشن طوفان الاقصی” کا نام دیا۔ حماس کے مطابق اسرائیل پر ایک بڑا حملہ 1948 سے لیکر آج تک بے پناہ مظالم اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز و غیر قانونی قبضے کا ردعمل تھا۔

حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملک کے عوام سے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ حماس اب ایسی قیمت چکائے گا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اسرائیلی ایٹیلجنس اداروں نے حماس کی جانب سے اتنے بڑے حملے کو اپنا سیکیورٹی فیلیور قرار دیا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب س اچانک حملے کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔

اسرائیل کا روز اول سے فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے اور وہاں کے عوام پر مسلسل مظالم کی داستان تو بہت لمبی ہے لیکن یہاں ذکر کرتے ہیں موجودہ حملے کے بعد ان عالمی قوانین کا جو جنگوں کے دوران لاگو ہیں جسکا اسرائیل کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔

پہلے مختصر تعارف "حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ” کا

حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔ پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے۔ اسی طرح لبنان، قطر، ترکی جیسے ممالک میں بھی اسکے اہم رہنماؤں کی موجودگی کی وقتا فوقتاً خبریں ملتی رہتی ہیں۔

حماس نے فلسطین کے 2006 کے انتخابات میں حصہ لیکر شاندار کامیابی حاصل کی تھی لہذا امریکہ، برطانیہ، اسرائیل و مغربی ممالک کا یہ دعوی کہ حماس ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ بے بنیاد ہے، حماس 14 مئی، 1948 کو خود ساختہ وجود میں آنیوالی اور قابض اسرائیل کے خلاف ایک مزاحمت کار تنظیم کیساتھ ساتھ باقاعدہ طور ایک سیاسی جماعت بھی ہے۔

حماس اوسلو امن معاہدے کی مخالف ہے اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ تنظیم کا قلیل المعیاد مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کا مکمل انخلاء ہے جبکہ طویل المعیاد ہدف ایک ایسی فلسطینی ریاست کا قیام ہے جو ان علاقوں پر مشتمل ہو جن کا بیشتر حصہ سن اڑتالیس میں یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل کا حصہ ہے۔ حماس 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں بھی اسرائیل کیساتھ چار بڑی جنگیں لڑ چکا ہے۔

اب ذکر عالمی جنگی قوانین کا

جنگی اخلاقیات پر مشتمل بین الاقوامی قانون انسانیت/ قانون جنگ اور مسلح تصادم کا قانون بھی کہلایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی قانون انسانیت بین الاقوامی قوانین کا ایک اہم حصہ ہے جو مسلح تصادم میں مزید شریک نہ ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور جنگی اخلاقیات وضع کرتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین انسانیت جو 1864ء میں بنے تھے۔ آئی ایچ ایل یعنی انٹرنیشنل ہیومینیٹیرئن لاء بین الاقوامی اور غیر بین الاقوامی دونوں طرح کے مسلح تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ قوانین کیلئے 1868، 1899ء اور 1907ء میں عالمی سطح کے بڑے کنونشنز منعقد ہوئے جسکے نتیجے میں ان قوانین بنانے کیلئے مختلف اوقات میں پروٹوکول و ڈکلریشنز پیش ہوئے جبکہ باقاعدہ طور پر یہ قوانین بنائے گئے۔

آداب القتال سے متعلق بین الاقوامی قانون جسے ”مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون “ بھی کہا جاتا ہے۔ کئی معاہدات اور رواجی قواعد کا مجموعہ ہے لیکن چار جنیوا معاہدات ایسے ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔

تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ کے لئے ہے۔ یہ چاروں معاہدات دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949ء میں وضع کئے گئے۔
تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ خلافت عثمانیہ نے بالکل ابتدائی مراحل میں آئی ایچ ایل پر دستخط کئے تھے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ آئی ایچ ایل کو حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل ہے۔

جہاں ایک طرف حالت جنگ میں عالمی جنگی قوانین عام شہریوں و ہر طرح کی آبادیوں کو تحفظ دینے کا کہتی ہے لیکن اسرائیل نے تسلسل کیساتھ غزہ سٹی کو نشانہ بناتے ہوئے اسکو ملیامیٹ کر دیا۔ اب تک 20 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جسمیں آدھے سے زائد بچے و خواتین شامل ہیں۔ اسی طرح صحافی، ڈاکٹرز، اقوام متحدہ کا عملہ، مزدور طبقات، تجارت سے وابستہ لوگ، طبی عملہ، شعرا، اساتذہ یعنی زندگی کے تمام تر طبقات کو بے دردی سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ غزہ کے تمام ہسپتالوں کو تباہ و برباد کیا گیا، تعلیمی اداروں، تجارتی مراکز، چرچز، لاکھوں مکانات، مساجد، آثار قدیمہ، کھیل کھود کے میدانوں، مراکز صحت، مہاجرین کیمپس، سڑکوں، مواصلاتی نظام، عوامی گزرگاہوں حتی کہ قبرستانوں کو بھی صیہونی طاقتوں نے نشانہ بنایا۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 80 فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ غزہ میں کئی بیماریاں پھیل گئی ہیں، اسی طرح لوگ بھوک و افلاس سے مرتے جا رہے ہیں۔ رفاہ کراسنگ کے ذریعے دنیا بھر سے امداد کی فراہمی/ ترسیل اسی طرح نہیں ہو پا رہی، پینے کو صاف پانی نہیں، اسرائیل ایندھن کی ترسیل کو روک رہی ہے۔ جاں بحق افراد کو اجتماعی طور پر دفن کیا جا رہا ہے، فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انکو ننگا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 7 ہزار افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کو فضائی و زمینی اطراف سے اسرائیل نے مکمل گھیرے میں لیکر وہاں کے در بدر لاکھوں عوام و زخمیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اسرائیل ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں و بارودی مواد کا کھلم کھلا استعمال کر رہا ہے لیکن وہ ممالک جیسے امریکہ، مغرب، برطانیہ، یورپ جو اسرائیل کو عالمی جنگی قوانین سے روک سکتا تھا لیکن وہ عسکری، مالی امداد سمیت ہر ناجائز طریقوں سے اسرائیل کو کھلم کھلا سپورٹ دیکر لاکھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جہاں اسرائیل کا مقصد حماس کا خاتمہ ہے لیکن اسکے برعکس وہ انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرکے جنگی جرائم کا مرتکب ہو چکا ہے۔

23 دسمبر کو وائس آف امریکہ پر شائع ہونے والی ایک مضمون کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کا شمار اب تک کی تاریخ کی سب سے مہلک اور تباہ کن مہموں میں سے ایک کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔
اس مہم کو شروع ہوئے دو ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے۔ تاہم، اس دوران کی جانے والی کارروائیاں 2012 اور 2016 کے درمیان شام کے شہر حلب، یوکرین کے ماریوپول یا پھر دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پر اتحادیوں کی بمباری سے کہیں زیادہ تباہ کن ہیں۔

12 اکتوبر 2023 کو وائس آف امریکہ پر شائع ہونے ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فسلطینیوں یا فلسطینی علاقوں میں مبینہ جرائم کرنے والے اسرائیلیوں کو مقامی سطح پر جوابدہ نہیں بنایا جاتا تو ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) واحد عالمی ادارہ ہے جو ان الزامات کے تحت احتساب کر سکتا ہے۔ حماس کا بھی ایک تازہ بیان میں یہی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ عالمی عدالت جنگی جرائم پر فوری اسرائیل کے خلاف کاروائی کریں۔

جہاں حماس کی جوابی کاروائیوں کا تعلق ہے۔ انکی کاروائیوں میں تھوڑے بہت عام شہری ضرور نشانہ بن چکے ہیں لیکن وہ لڑائی کے دوران محض اسرائیل کا فوج نشانہ بنا رہی ہے اور اب تک اسرائیل کے سینکڑوں فوجی ہلاک کرکے انکے ہزاروں فوجی گاڑیاں تباہ کر چکا ہے۔ اسرائیل خود یہ اعتراف کر چکا ہے کہ 7 اکتوبر کو غلطی سے اپنے شہریوں کو بھی مارا گیا تھا۔ جہاں عام اسرائیلی قیدیوں کا تعلق ہے تو رہا ہونے والے قیدیوں نے خود ویڈیو بیانات ریلیز کرکے حماس کا انکے ساتھ رویے کی بے پناہ تعریف کی ہے۔

ایسے میں ردعمل کے طور پر جنگ کا دائرہ کار لبنان اور یمن تک تو پھیلنا تھا جہاں اب بحیرہ احمر میں بھی بحری تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ و اسرائیل سمیت دنیا بھر میں معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں کے خلاف کروڑوں عوام سراپا احتجاج ہیں۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کی حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں عام لوگوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے یا وہاں کے ہسپتالوں میں انکو حماس کے خفیہ مشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے، ساتھ ساتھ خود خفیہ اداروں نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا ہے کہ حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔

اسرائیل جو سلامتی کونسل کے حالیہ قرار داد سے بھی انکاری ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حالیہ ایک بیان کے مطابق وہ جنگ کو روکنے کی بجائے آنیوالی دنوں میں اسمیں مزید شدت لائیں گے۔ ایسے میں مغربی میڈیا بھی مسلسل گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے اسرائیل اور انکے حمایتیوں کا ساتھ دیتی آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کی تو یہ حالت ہے جیسا کہ الجزیرہ کے مطابق دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز میں پبلک پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر تامر قرموط نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد منظور کرنے میں ناکامی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ بین الاقوامی ادارہ اب جنگ کے حل کے لیے ’غیر متعلق‘ ہو گیا ہے۔ جہاں اسلامی ممالک کی سربراہی تنظیم او آئی سی اور 40 ممالک کی اسلامی فوج کا جنگی جرائم کو روکنے کی بات ہے تو اس چائے، پانی والی سرکار و تنخواہ دار فوج کا تو نام ہی نہیں لینا چاہئیے۔

نوٹ۔ ادارے کا رائٹر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button